تعصب اور تنگ نظری سے نجات كیسے ممكن ہو؟


کچھ عرصہ، تقریباَ ایک سال قبل، میری ایک دوست جو ایک بہترین تعلیمی ادارے میں معلم ہے، نے اپنی کلاس میں پیش آنے والا ایک واقعہ بتایا۔ یہ سال کا آخری دن تھا اور سب طالب علم کلاس میں لنچ شیرنگ پارٹی کر رہے تھے۔ کلاس کے تمام بچوں نے اپنے عیسائی کلاس فیلو کو اپنے ساتھ کھانے اور اس کا لایا ہوا کھانا کھانے سے منع کر دیا کیونکہ وہ مسلمان نہیں تھا۔ وہ عیسائی طالب علم بچہ تو جو افسردہ ہوا وہ الگ کہانی ہے لیکن میرے ذہن سے یہ بات ایک سال گزرنے کے باوجود محو نہیں ہو سکی۔ زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ یہ سب بچے 10 سال سے کم عمر کے تھے۔

بچوں کے ذہن میں یہ بات کس نے ڈالی؟
کیا اسکول اس کا ذمہ دار ہے یا والدین؟

أوپر بیان کردہ واقعے کے علاوہ بھی ایسے بیشمار واقعات نظر آتے ہیں جو مذہبی بنیادوں پر تعصب اور نفرت کی عملی شکل ہوتے ہیں۔

ہمارے یہاں ناقص نظامِ تعلیم اور اساتذہ کے ناکافی کردار کے حوالے سے بہت کچھ کہا اور لکھا جاتا ہے اور اس دوران بچوں کی تربیت میں والدین کے کردار کو بڑی حد تک نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ تعلیم و تربیت کے عمل میں والدین کا ایک اہم کردار ہے جسے کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔

گھر کسی بھی معاشرے کی بنیادی اکائی ہوتا ہے۔ اسکول اور کمرہ جماعت کے علاوہ بچہ گھر کے ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ بچے اپنے والدین کے طوا اطوار اور اور ان کے نظریات کی لاشعوری طور پر نقل کرتے ہیں اور زیادہ تر انہیں اطوار کو اپنا لیتے ہیں۔ ایسے میں اگر گھر کے افراد کسی مذہب یا مذہبی عقیدے کے لیے نامناسب رویہ رکھتے ہیں تو زیادہ امکان اسی بات کا ہے بچہ بھی اسی رویے کو اپنا لے گا۔

معاشرے میں عدم برداشت کو کم کرنے اور رواداری کو فروغ دینے کے لیے صرف تعلیمی ادارے ہی کافی نہیں بلکہ یہ گھر کی سطح پر کرنے کا کام بھی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ مختلف معاملات پر ردعمل سوچ سمجھ کر دیں کیونکہ ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ ان کے بچوں کو متعصب اور تنگ نظر بنا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچہ ایسی باتیں اپنے دوستوں سے بھی سیکھ سکتا ہے۔ اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ والدین روزانہ کی بنیاد پر بچوں سے بات کریں اور ان کی بات سنیں تا کہ بروقت ان کی اصلاح ہو سکے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپنے مذہب اور عقیدے پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کے ساتھ محبت اور امن سے رہا جا سکتا ہے۔

قارئین تعصب، نفرت اور تنگ نظری اس معاشرے کا ناسور بن چکے ہیں۔ اس کو ختم کرنے کے لیے ہر شخص کو اپنی ذمہ داری سمجھنی ہو گی اور اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).