جسم پر بنے ٹیٹوز کیا کہتے ہیں؟


میں امریکہ کی ریاست مشی گن کے قید خانے میں بطور تھراپسٹ کام کرتی ہوں اور منشیات کے عادی افراد کا علاج کرتی ہوں۔ یہ وہ افراد ہیں جو اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کے نتیجہ میں سزائیں کاٹ کر مزید چھ ماہ کے لئے تھیراپیٹک کمیونٹی میں علاج اور آزاد کمیونٹی میں بسنے کی تربیتی معیاد پوری کر رہے ہیں۔

میں جیل کی اس فضا میں ہر روز سینکڑوں افراد کو گہرے نیلے لباس میں ملبوس دیکھتی ہوں۔ جن کی قمیضوں کی آستینوں پر نارنجی رنگ کی پٹیاں انہیں کچھ اور ممتاز کر دیتی ہیں۔ یہ مخصوص لباس جہاں انہیں ایک دوسرے سے جوڑتا ہے وہاں ایک اور مماثلت بھی ان کے درمیان مزید تعلق کا سبب بنتی ہے۔ اور وہ ہے تقریباً ہر فرد کے جسم پہ بنے ٹیٹوز (Tatoos) ۔

پچھلے کئی سال سے اس مخصوص فضا میں کام کرتے ہوئے میرا تجربہ یہ ہے کہ تقریبا ہر فرد کے جسم پر ٹیٹوز کندہ ہیں۔ پورے جسم پہ تخلیقی مہارت سے بنے نقش و نگار تو کبھی محض چند حصوں پہ بنے ٹیٹوز۔ میرے مشاہدے نے مجھے مجبور کیا ہے کہ پتہ کروں کہ جسم کے کینوس پہ بنے نقش و نگار آخر کیا کہتے ہیں؟

تو چلئے میں اپنے کلائینٹ (جو میرے زیرِ علاج ہے ) راجر سے تعارف کرواتی ہوں۔ راجر (فرضی نام) 28 سالہ قدرے بھاری جسم کا یوروپین نژاد نوجوان ہے۔ گروپ تھرپی میں زیادہ گفتگو سے پرہیز کرتا ہے۔ لیکن انفرادی سیشن (جو میرے ساتھ ہوتا ہے ) میں صورتحال مختلف ہے۔ راجر کا پسندیدہ نشہ ہیروئین رہا ہے۔ وہ دس سال سے قید بھگت رہا ہے۔ زندگی کی ناکامی کے باعث اس کی ناخوشی اور غصہ واضح ہے۔ اس کا جرم بغیر ہتھیار کے لوٹ مار (unarmed robbery) ہے۔ اس حساب سے اس کی سزا کم ہونی چاہیے تھی۔ مگر اس کی معیاد میں اضافہ کی وجہ اس کا غصہ اور لڑائی جھگڑا ہے۔ جس کے باعث اسے تنہائی کی پانچ سال قید کی سزا بھی ملی ہے۔ جس کے دوران اس کا قیدیوں سے ربط یکسر منقطع تھا۔

” راجر کچھ اپنے ٹیٹوز کے متعلق بتاؤ؟ “ وہ مسکرا دیا۔ ”سیدھے ہاتھ پہ کلائی کے مقام پر جو تاریخیں ہیں وہ میرے باپ کی تاریخِ پیدائش اور وفات کی ہیں۔ پھر اس نے بتایا کہ جب اس کی چوتھی سالگرہ تھی تو کمرے کی چھت سجاتے ہوئے اس کا باپ گر پڑا اور مفلوج ہو گیا۔ پھر دو سال بعد اس کی چھٹی سالگرہ کے دو دن بعد وہ شدید ہارٹ اٹیک کے بعد مر گیا۔ پھر میں نے“ لائیٹ ہاؤس ”کا پوچھا۔ اس نے محبت سے کہا“ یہ میری ماں کی علامت ہے۔

اس کی محنت، محبت اور عبادات جو میرے لئے ”لائیٹ ہاؤس“ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ”
“ اور یہ مکڑی کا جالا اور اس میں پھنسی مکھی؟ ”اس نے اس پر توقف کے بعد بتایا۔ “ جب میری ماں نے والد کی وفات کے بعد نوکری اور پھر پڑھائی شروع کی تو وہ مصروف ہو گئی تھی۔ لہذا میرے بڑی عمر کے کزن کو میری ذمہ داری دے دی۔ سات آٹھ سال کی عمر سے اسکول کے بعد وہ میری بے بی سٹنگ کرتا اور اس طرح وہ چھ سات سال تک مجھے جنسی تشدد کا نشانہ بناتا رہا ہے۔ یہ تصویر اسی کی نشانی ہے۔ ”راجر نے بتایا کہ اس نے اس مسلسل جنسی تشدد کا کبھی کسی کو نہیں بتایا تھا مگر مجھ سے پہلے ایک اور تھرپسٹ سے اس کا ذکر کیا تھا اور آج مجھے بتا رہا ہے۔ راجر نے یہ بھی بتایا کہ اس کی گردن کے نیچے ایک آنکھ بنی ہے جو اس کے گناہوں کی علامت ہے۔

اس طرح راجر کے ٹیٹوز نے مجھے وہ سب کچھ بتایا کہ جو وہ عام حالات میں اتنی آسانی سے نہیں بیان کرتا۔ لیکن ان ٹیٹوز نے مجھے اس کا غصہ، محرومی اور ڈیپریشن سمجھنے میں بہت مدد دی۔

دیکھا جائے تو ٹیٹوز صدیوں سے اظہار کا طریقہ رہے ہیں۔ وہ انسانی شناخت، انفرادیت، اندرونی جذبات اور سوچ کی عکاسی کرتے ہیں اور بہت سی صورتوں میں منفی جذبات مثلا غم و غصہ، بغاوت، احساسِ کمتری یا برترتی جیسے محسوسات سے بنپٹنے کا مدافعتی عمل۔

ٹیٹوز کا لغوی مطلب نشان بنانا یا مارنے کا عمل دھرانا ہے۔ انسانی تاریخ میں اس قدیمی آرٹ کی شہادت تقریباً بارہ ہزار قبلِ مسیح میں ملتی ہے۔ جب کہ یہ مختلف ثقافتوں میں رسم و رواج کا اہم حصہ تھے۔ مثلاً عورتوں کے بازوؤں پہ بنے نقش و نگار ان کے خاص ہنر کی علامت تھے اور شادی کے لئے بہتر امیدوار ہونے کی دلیل۔ تاریخ رقم ہونے کے بعد اہرامِ مصر میں ان نقوش کو پہلا تصور کیا گیا۔ ریاستوں کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ یہ عمل بھی وسیع ہو کر یونان، ایران، عرب اور چین تک جا پہنچا۔

مختلف زبانوں میں ٹیٹوز کے لئے مختلف الفاظ مستعمل تھے۔ مثلاً یونانی میں یہ لفظ (Stizein) اسٹیزن تھا جو لاطینی زبان اسٹگما سے نکلا ہے جس کا مطلب نشان یا برینڈ ہے اور یہ عموماً کم حیثیت مثلاً مجرموں، غلاموں یا مخصوص قبیلوں کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ انگریزی زبان میں لفظ (Tattoo) کیپٹن جیمز ہُک کی دین ہے۔

اس طرح دنیا کی ہر تہذیب میں اس کا پتہ حنوط شدہ ممی میں ملتا ہے۔ 1991 میں دنیا کے پہلے (Otzi) حنوط شدہ جسم پہ اکسٹھ ٹیٹوز کا پتہ ملا جو 5300 سال پرانا ہے اور جس میں راکھ کو بطور رنگدار کیمیکل استعمال کیا گیا تھا۔

غرض بحیثیت مجموعی اس عمل ”ٹیٹوونگ“ کے مختلف مفہوم تھے۔ مثلاً طبی علاج، مجرموں کی شناخت، غلاموں کی تفریق، مذہبی تقاریب کا بنیادی حصہ، تو جسمانی سجاوٹ۔ ٹیٹوز کی مقبولیت کا اضافہ روسی سپاہیوں کی بدولت ہوا جنہوں نے اسے ”آرٹ کی شکل“ قرار دی۔ فن اس قدر مقبول ہوا کہ شہنشاہِ سلطنت نے اس کو غیر مذہبی اور خدا کی شکل بگاڑنے کے مترادف قرار دیا اور 787 بعدِ مسیح میں پوپ ہاڈرین (Hardrian) نے اس پر مکمل پابندی عائد کر دی۔

اس پابندی کے نتیجہ میں بارہویں سے سولہویں صدی تک ٹیٹوز کا استعمال تقریباً معدوم ہو گیا۔ تاہم 1691 میں ولیم ڈیمفرے نے اسے دوبارہ مغرب میں متعارف کروایا۔ بالخصوص جب سمندری قزاق سمندری سفر پہ جاتے تو ان مقامات سے متعلق ٹیٹوز بنواتے۔ اس طرح وہ اپنی سفری یادوں کے مستقل نشانات کے ساتھ واپس لوٹتے۔

پچھلے پچاس سالوں میں ٹیٹوز کے فن کی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا ہے اور مخصوص گروہوں یا قبیلوں سے نکل کر انفرادی شناخت کا ذریعہ بن رہا ہے۔ گویا یہ ایک دریچہ ہے دوسروں کی زندگی میں جھانکنے کا۔ پہلے اگر یہ منفی رجحانات کے ساتھ تھا تو اب عام افراد میں مقبول ہو رہا ہے۔ ہیرس (Harris) سروے پول ( 2013 ) کے مطابق 29 % امریکی باشندوں کم از کم ایک ٹیٹو ہے۔ جو 2008 میں 14 % میں تھا۔

تمامتر مقبولیت کے باوجود ٹیٹوز کے حوالے سے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ جس کی رو سے ٹیٹوز کا رجحان ان افراد میں زیادہ ہے جن کا رویہ پر خطر ہے۔ مثلاً قانون شکنی، جنسی بدفعالی، منشیات کا استعمال، ناپسندیدہ گروہ سے وابستگی، خود کشی اور لڑائی ڈنگے کا رجحان وغیرہ۔ اس کے علاوہ ٹیٹوز کا ذہنی بیماریوں سے ربط بھی تحقیقات کا موضوع ہے۔ مثلاً قیدیوں میں عام افراد کے مقابلے میں 5۔ 3 گنا ٹیٹوز زیادہ ہوتے ہیں اور ان میں پرسنلٹی ڈس آرڈر، اینٹی سوشل یا تنہائی پسندی، اذیت پسندی اور منفی سوچوں کا رجحان دیکھا گیا ہے۔

ان میں خاص کر وہ افراد شامل ہیں جو مینیا، ذہنی دباؤ یا پی ٹی ایس ڈی میں مبتلا ہیں۔ تاہم مغرب ہو یا مشرق پچھلی ڈھائی تین دہائیوں سے نوجوان نسل، بالخصوص ( 14۔ 28 ) سال اس ثقافت کا والہانہ استقبال کر رہی ہے۔ اور اس کا تعلق شخصی تشخص، خود شناسائی، تخلیقی صلاحیت اور خود اعتمادی سے جوڑتی ہے۔ ٹیٹوز ان کی نظر میں وہ علامات ہیں جو ان کی ذہنی طاقت کو مزید با معنی شکل دیتی ہیں۔ اور لاتعلقی کے اس دور میں نہ صرف انفرادیت اور شخصیت کے اظہار کا ذریعہ ہیں بلکہ اپنے ساتھیوں میں قبولیت اور پسندیدگی کا شرف حاصل کرنے کی تخلیقی کوشش بھی۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).