پیار سے ڈر لگتا ہے صاحب


16 اکتوبر 2016۔ رول ماڈل وہ لنگر ہے جو کسی بھی گروہ، قوم یا ملک کو تھامے رکھتا ہے۔ زندگی میں ناکامیوں کو چیرتے ہوئے کامیابی کی روشنی تک رہنمائی کے لیے نئی پود کو بلا تکان قوت اور جذبہ بخشتا ہے۔
کیا آج پاکستان میں کوئی شخص، ادارہ یا تنظیم رول ماڈل کی تعریف پر پورا اترتا ہے؟
آپ کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو ذرا اپنی اور آس پاس والوں کی روزمرہ گفتگو پر صرف پانچ منٹ دھیان دے کر دیکھیں۔ 90 فیصد گفتگو ماضی کے محور پر گھوم رہی ہے۔

ہمارے دادا، اللہ بخشے کبھی اکیلے کھانا نہیں کھاتے تھے۔ ہمارے باپ نے کبھی ضرورت سے زیادہ ایک پیسہ پاس نہیں رکھا۔ جناح صاحب جلد مر گئے ورنہ یہ حالت نہ ہوتی۔ ایوب فوجی تھا مگر ترقی کی بنیاد بھی اسی نے رکھی۔ بھٹو صاحب پھانسی چڑھ گئے مگر آمر سے رحم نہیں مانگا۔ بے نظیر کو معلوم تھا کہ موت اس کے تعاقب میں ہے پھر بھی پاکستان آئی۔ سن 65 کی جنگ میں پاک فوج کے جوان سینے پر بم باندھ کے ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے۔ کیا پی آئی اے تھی۔ باکمال لوگ لاجواب پرواز۔ سبحان اللہ۔

اور جب یہ پوچھا جائے کہ کوئی زندہ رول ماڈل بھی ہے تو عموماً اس طرح کے جوابات ملتے ہیں۔ اجی چھوڑیے۔ کتنے ارمانوں سے ملک بنایا تھا۔ کیا حالت کردی 70 سال میں۔

نواز شریف تو یوں اداکاری کر رہا ہے جیسے پاناما گیٹ ہوا ہی نہیں۔ اس بھولی صورت کے پیچھے ایک مہابلی بیٹھا ہے جس کو سوائے ظلِ الہی کا اقبال بلند رہے کے سوا کچھ سنائی نہیں دیتا۔ بھائی جتنی اونچی دکان اتنا پھیکا پکوان۔

اور عمران خان؟ شروع میں کچھ امیدیں تھیں مگر اب تو لگتا ہے کہ اس کا ویژن بھی گینڈے جیسا ہے۔ ادھر ادھر دیکھے بغیر کھروں سے چنگاریاں نکالتے ہوئے ناک کی سیدھ میں بھاگ پڑنا۔ سامنے بھلے دیوار ہی کیوں نہ ہو۔ خان صاحب کو کوئی بھی شیدا کان میں کہہ دے کہ آپ کے کان کتا لے گیا تو وہ کان چیک کیے بغیر پیچھے دوڑ پڑتے ہیں۔ ویسے بہت اچھے آدمی ہیں۔

اور بلاول؟ ارے صاحب کیا بتائیں۔ یہ بچہ تو نانا اور اماں کی سیاسی مجاوری کے ریڑھے پر بٹھا دیا گیا ہے۔ اس ریڑھے کو باپ اور پھوپھی کھینچے پھر رہے ہیں۔ بھٹو کے نام پر بابا۔ جو دے اس کا بھی بھلا، نہ دے اس کا بھی بھلا۔ کوئی نیا آئیڈیا نہیں، نعرہ نہیں، پروگرام نہیں۔ بس بڑھکیں لگوا لو اور وہ بھی کسی اور کی رٹائی ہوئی۔

اور فوج؟ فوج اگرچہ اس ملک کی واحد منظم سیاسی جماعت ہے۔ مگر رول ماڈل کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اس کا نام ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹیوں، جبری گمشدگیوں اور پتلی تماشے کی ڈوریاں ہلانے والوں سے جڑ جائے۔ سارا دھیان اگر پروفیشنلزم پر ہی ہو تو بہت اچھا رول ماڈل ہے۔ ہر کچھ سال بعد اس لیے بھی اچھی لگنے لگتی ہے کہ باقی ادارے تو بالکل چوپٹ ہیں۔

ہاں عدلیہ بھی بہت اچھا رول ماڈل بن سکتی تھی۔ افتخار چوہدری کو موقع بھی ملا لیکن انھوں نے بیشتر توانائی میڈیا کا دولہا بنا رہنے اور دو کالمیوں، آٹھ کالمیوں کے چکر میں ضائع کر دی۔ عام آدمی آج بھی انصاف کے لیے پہلے کی طرح جوتیاں چٹخا رہا ہے۔

تو پھر زندہ رول ماڈل کہاں تلاش کیا جائے؟ کیا آپ اپنے بچوں کے لیے رول ماڈل ہیں؟ اگر نہیں تو بقراطی بند کیجیے اور خود مثالی بننے کی کوشش کیجئے۔ آپ کے ہوتے آپ کے بچوں کو کسی رول ماڈل کی جانب دیکھنے کی ضرورت پیش ہی کیوں آئے؟ رول ماڈلز آپ کے آس پڑوس میں ہی کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ اسے نواز شریف، راحیل شریف، سپریم کورٹ یا تحریکِ انصاف میں مت ڈھونڈیے۔

اور یہ صرف آپ کا ہی مسئلہ نہیں۔ یہ تلاش ہر طرف ہے۔ انڈیا میں 56 انچ کا سینہ تو دستیاب ہے مگر رول ماڈل کہاں ہے؟ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے سیاست میں کودنے کے سبب یہ سوال اور شدت سے زیرِ بحث ہے کہ رول ماڈل جائے بھاڑ میں۔ یہاں تو بنیادی شائستگی کے بھی لالے پڑے ہیں۔

اور جب یہ سب ادارے اور شخصیات دبنگ انداز میں دل آویز مسکان سجائے بار بار کی ڈسی جنتا کا دل جیتنے کے لیے خود کو بطور رول ماڈل پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو جنتا بھی اس کے سوا کیا سوچے۔ تھپڑ سے نہیں، پیار سے ڈر لگتا ہے صاحب۔
16 اکتوبر 2016


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).