انگلینڈ: طلاق کے قانون میں اصلاحات، طلاق کے لیے گھڑنے کی ضرورت نہیں ہو گی


طلاق انگلینڈ الزامات

اپنے بازو بند کیے یہ ماڈل جوڑا ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہیں ہیں۔

انگلینڈ اور ویلز میں طلاق کے قوانین میں بنیادی تبدیلیاں متعارف کرائے جانے کے بعد طلاق لینے کا عمل بغیر تلخی کے تیزی سے مکمل ہو سکے گا۔

رائج الوقت قوانین کے مطابق، شادی شدہ جوڑے میں سے کوئی ایک اگر طلاق چاہتا ہے تو اُسے پہلے دوسرے کے خلاف غیر معقول رویے کے الزام لگانا ہو تا ہے جو طلاق کی کارروائی کے آغاز کے لیے ایک وجہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

مستقبل میں انہیں صرف یہ کہنا ہو گا کہ اب ان کی شادی ناقابلِ بازیافت طور پر ٹوٹ چکی ہے۔ اس تبدیلی سے جوڑے کے ایک ساتھی کے لیے طلاق دینے سے انکار بھی ممکن نہیں رہے گا اگر دوسرا طلاق چاہتا ہے۔

وزیرِ انصاف ڈیوڈ گوگ کا کہنا ہے کہ ان اصلاحات سے طلاق کے لیے ’الزامات گھڑنے‘ کا کھیل بھی ختم ہوجائے گا۔

تاہم شادی کی حامی تنظیم ’کوایلیشن فار میرِج‘ کے سربراہ کولِن ہارٹ کا کہنا ہے کہ مجوزہ اصلاحات سے یہ بھی ممکن ہو سکے کہ ’دھوکہ دینے والے یا شادی سے بیزار جوڑے شادی کے مضبوط اور عمر بھر کے ساتھ رہنے کے اس رشتے کو، ریاست کی مدد سے اور بعض اوقات ریاست کی حوصلے افزائی کی بدولت، با آسانی توڑ سکیں گے۔

خراب تعلقات

موجودہ قوانین کے مطابق کسی خرابی کی وجہ سے طلاق حاصل کرنے میں، یعنی طلاق لینے کے لیے شادی شدہ جوڑے کا اپنے ساتھی پر زنا یا غیر معقول رویے جیسی کسی خرابی کی وجہ بیان کرنے میں، تین سے چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔

لیکن ایسی طلاق کا عمل جس میں کوئی الزام عائد نہ کیا جائے تو اس عمل کو سکاٹ لینڈ میں مکمل ہونے میں کم از کم ایک برس لگ سکتا ہے، جبکہ انگلینڈ میں کم از کم دو برس لگ سکتے ہیں۔

قانون کی نظر میں علحیدہ رہنے کے دور کو بھی ایک ہی گھر میں رہنا سمجھا جاتا ہے بشرطیکہ وہ ایک ہی بستر پر نہ سوتے ہوں یا ایک عُرفِ عام میں ایک جوڑے کی طرح نہ رہ رہے ہوں۔

اسی موضوع سے متعلق یہ بھی پڑھیے:

سابق شوہر کی نئی بیوی کو گھوڑی کہنے پر مقدمہ

کوڑے دان میں ڈالنے کی آزادی: شادی کے ملبوسات

HisChoice#: شادی نہ کرنے پر آخر اتنے سوال کیوں؟

ڈیوڈ گوک نے بی بی سی نیوز کو بتایا ’صاف بات ہے کہ ہم شادی جوڑوں کو طلاق کے ایک ایسے عمل کے ذریعے اکھٹا نہیں رکھ سکتے ہیں جو مزید تلخیاں پیدا کرتا ہو اور الزامات کا ایسا سلسلہ شروع کرتا ہو جو اس جوڑے کے طلاق کے اس عمل سے پہلے کے تعلقات کو مزید کمزور اور خراب کرتا ہو۔‘

اُن کا اصرار ہے کہ ’جیسے ہی پارلیمان کو وقت ملے گا‘ نئے قوانین کے لیے قانون سازی مکمل کرلی جائے گی۔

ان قوانین میں تبدیلی کے کوشش پر کام اس وقت شروع ہوا تھا جب ایک خاتون کی طلاق کی درخواست کو سپریم کورٹ نے مسترد کردیا تھا۔

وُوسٹرشائر کی ٹینی اوونز جن کی عمر 68 برس کی ہے، نے اپنی شادی کے چالیس برس کے بعد سوچا کہ وہ اپنے کے شوہر سے طلاق لے لیں۔ انہوں نے طلاق اس بنیاد پر مانگی تھی کہ وہ اس شادی سے ناخوش ہیں۔

لیکن ان کے شوہر نے اس بنیاد پر طلاق دینے سے انکار کردیا۔ اور سپریم کورٹ کے بینچ کے تمام ارکان نے ان سے اتفاق کرتے ہوئے ٹینی اوونز کی درخواست کو متفقہ طور پر مسترد کردیا تھا۔

اس فیصلے کا عملی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس جوڑے کو سنہ 2020 تک اکھٹے رہنا ہوگا۔

برطانیہ کی سب سے زیادہ سینئیر جج بیرونیس ہیل، جو اس مقدمے کی نگرانی کر رہی تھیں، پہلے بھی کئی مرتبہ کہہ چکی ہیں کہ ملک کے طلاق کے قوانین ’غیر منصفانہ‘ ہیں اور ان پر نظرِ ثانی کی جائے۔

طلاق کے لیے تجویز کیے گئے نئے قوانین میں درخواست سے لے کر طلاق کے عمل کو مکمل ہونے میں زیادہ سے زیادہ چھ ماہ ہوں گے۔

چھ ماہ گزرنے کے بعد طلاق کا سرٹیفیکیٹ جاری کرنے سے پہلے درخواست گزار کو ایک مرتبہ پھر اعادہ کرنا پڑے گا کہ وہ طلاق چاہتا ہے۔

حکومت کہتی ہے کہ یہ ایک ’با مقصد وقت‘ ہو گا کہ طلاق حاصل کرنے والا جوڑا اپنے معاملات پر غور کرے اور اگر فیصلہ بدلنا چاہتا ہے تو بدل لے۔

اس کے علاوہ ان تجویز کیے گئے قوانین میں ایک نئی بات بھی متعارف کرائی جارہی ہے کہ ایک شادی شدہ جوڑا طلاق کے لیے ایک مشترکہ درخواست بھی دے سکتا ہے۔

بغیر کسی الزام کے طلاق کا نظام بہت وسیع سطح کا ہو گا۔ یہ گزشتہ پچاس برسوں میں طلاق کے قوانین میں سب سے بڑی تبدیلی ہو گی۔

یہ تبدیلی کیوں متعارف کرائی جارہی ہے۔ ؟ کیوں کہ الزام لگا کر طلاق کے موجودہ نظام کو کئی ماہرین دباؤ میں شدت پیدا کرنے والا اور بسا اوقات کشیدہ تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا کرنے والا سسٹم قرار دیتے ہیں۔

الزامات اور لڑائی کے بعد طلاق کے اس طریقہِ کار کا حساس پہلو یہ ہے کہ اس میں طلاق حاصل کرنے والے جوڑے کے بچوں کی زندگیاں بہت بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔

جہاں انصاف کے نظام کی کوشش ہو کہ وہ لوگوں کو اپنے تنازعات غیر متصادم انداز میں بغیر لڑائی کے طے کرنے میں مدد دے، طلاق کا طریقہِ کار کافی مشکل بن جاتا ہے، کیونکہ اس رشتے کو ختم کرنے کے لیے جس طرح کی الزام تراشیاں کی جاتی ہیں وہ بچوں کی مناسب دیکھ بھال کے انتظامات کے لیے جو کوششیں کی جارہی ہوتی ہیں، انھیں بھی متاثر کرتی ہیں۔

طلاق انگلینڈ الزامات

گزشتہ کرسمس کے موقعہ پر تیرہ افراد نے طالق کے لیے درخواست دی تھی۔

موجودہ نظام میں جو والدین طلاق کے بعد اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کسی مناسب انتظام پر متفق ہونا چاہتے ہیں، ان کے لیے طلاق کے عمل کے قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اس دوران کی گئی الزام تراشیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی تلخیوں پر قابو پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔

غلطیاں، الزامات اور پھر انھیں دو سے پانچ برسوں میں ثابت کرنے کے بعد علحیدہ ہونے والے جوڑوں کی طلاق کے بعد کی زندگی کو آسانی بسر کرنا، آسان کام نہیں سمجھا گیا ہے۔ اسی لیے طلاق کے لیےالزام تراشی کے اس نظام کو ختم کیا جا رہا ہے۔

نیا نظام بارہ ہفتوں کی عوامی مشاورت کے بعد تیار کیا گیا ہے جس میں الزامات کے بغیر طلاق کے عمل کو جلد مکمل کرنے کے لیے عوامی حمایت نظر آئی ہے۔

ڈیوڈ گوک کا کہنا ہے کہ طلاق کے قوانین میں تبدیلی کے ذریعے والدین کے درمیان طلاق کے بعد کے جھگڑوں کو کم کیا جاسکتا ہے اور اس طرح بچوں کے مستقبل پر منفی اثرات بھی کم ہو سکتے ہیں۔

’ریلیٹڈ‘ نامی ایک چیریٹی تنظیم کے سربراہ ایڈن جونز کہتے ہیں کہ الزام تراشیوں کی وجہ سے علحیدہ ہونے والے جوڑوں کے درمیان ناقابل یقین حد تک دشمنی کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ ’اس وجہ سے بچوں کا مستقبل مشکلات کا شکار ہوتا ہے لیکن اس سے والدین کی زندگیاں بھی متاثر ہوتی ہیں، اس لیے اگر ہم ان تکلیفوں کو کم کرنے میں کچھ مدد دے سکتے ہیں تو یہ بہت اہم ہوگا۔‘

آفس فار نیشنل سٹیٹیکس کے ایک جائزے کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں الزامات کی وجہ سے ستر ہزار سے زیادہ طلاقیں ہوئی ہیں جبکہ بغیر الزامات کے بعد پینتالیس ہزار طلاقیں ہوئی ہیں۔

طلاق انگلینڈ الزامات

برطانیہ کی سپریم کورٹ

’شیکسپئیر مارٹینیو‘ نامی وکلا کی ایک کمپنی سے وابستہ طلاق کے قوانین کی ماہر ایک وکیل زہرہ پبانی نے طلاق سے متعلق نئے قوانین کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت ان قوانین کو اکیسویں صدی کی ضروریات سے ہم آہنگ کرے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’طلاق کے زخم صرف علحیدہ ہونے والے جوڑے ہی کو نہیں لگتے ہیں بلکہ بچوں اور خاندان کے دیگر رشتہ داروں کو بھی بری طرح متاثر کرتے ہیں۔‘

’حکومت کی جانب سے اس عزم سے الزام تراشیوں سے پیدا ہونے والے گند کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔‘

تاہم ’کوایلیشن آف میریج‘ تنظیم کے کولِن ہارٹ کہتے ہیں ’موجودہ نظام کے اندر طلاق کے عمل میں دی گئی تاخیر علحیدہ ہونے والے جوڑوں کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے تاکہ وہ علحیدہ ہونے سے رک سکیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’طلاق کا تیزی سے مکمل ہونے والا عمل مصالحت کے امکانات کو کم کردیتا ہے۔ اور الزامات کے بغیر طلاق کے طریقہِ کار سے ہوگا یہ کہ علحیدہ ہونے والا جوڑے کی عدالتی کاروائی کی وجہ سے طلاق ہو جائے گی، بچوں سے ملتے رہنے کے انتظامات ہوجائیں گے، ان کی جائیداد تقسیم ہو جائے گی، باوجود اس کے کہ وہ اپنے عہد و پیمان میں ایک دوسرے کے ساتھ مخلص تو ہوں گے۔‘

اسی بھی پڑھیے

’فوری طلاق یورپی قانون سے متصادم‘

کِرنجیت: تشدد سے تنگ آ کر شوہر کو جلا دینے والی خاتون

سکھ مرد طلاق یافتہ خواتین سے کیوں شادی نہیں کرتے؟

امیلیا جیکب، جو اس وقت طلاق کے ایک عمل سے گُزر رہی ہیں، ان تبدیلیوں کے ناقدین کے جواب میں کہتی ہیں وہ یہ نہیں سمجھ سکی ہیں کہ طلاق کے عمل کو پرامن بنانے سے شادی کے بارے میں ایک پرسکون رویہ کیسے پیدا ہو گا۔

’اس وقت اس بات میں عدم توازن ہے کہ شادی کرنا تو کتنا آسان ہے جبکہ طلاق لینا کتنا مشکل ہے۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔‘

’میں یہ نہیں سمجھتی ہوں کہ کوئی یہ سوچے کہ اوہ، اچھا یہ صحیح طرح نہیں نبھ رہی ہے تو چلیں اب کسی نہ کسی طرح گُزارہ کرلیتے ہیں۔‘

انگلینڈ، ویلز اور شمالی آئر لینڈ میں طلاق کی وجوہات

جب لوگ طلاق کے سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کے لیے درخواست دیتے ہیں تو انھیں مندرجہ زیریں پانچ عوامل میں کسی ایک کو ثابت کرنا ہوتا ہے:

  • زنا، یعنی کسی اور کے ساتھ جنسی تعلقات
  • غیر مناسب رویہ
  • چھوڑ کر چلے جانا
  • جوڑا دو برس سے الگ رہ رہا ہے اور طلاق کے لیے متفق ہے
  • جوڑا پانچ برس سے الگ رہ رہا ہے، چاہے ان میں سے ایک طلاق نہیں بھی چاہتا ہے

سکاٹ لینڈ میں طلاق کی وجوہات

سکاٹ لینڈ میں ایسے جوڑوں کے لیے طلاق کا ایک سادہ سا طریقہ موجود ہے جن کے سولہ برس سے کم عمر کے بچے نہ ہوں، اور جو یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ ان کی شادی اب چل نہں سکتی ہے۔ اسے ثابت کرنے کے لیے مرضی سے دونوں کی ایک برس کی عملی علحیدگی کافی ہے اور اگر ایک پارٹنر طلاق کے لیے راضی نہیں ہے تو دو برس کی مرضی کے بغیر کی علحیدگی کافی ہے۔

اور اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو طلاق کے لیے دو قانونی جواز ہیں:

1- شادی ناقابلی باز یافت حد تک خراب ہوچکی ہے اور اسے ثابت کرنے کے لیے مندرجہ زیریں میں سے کوئی ایک بات ثابت کرنا ضروری ہے:

  • زنا
  • غیر مناسب رویہ
  • جوڑا ایک برس سے الگ رہ رہا ہے اور طلاق کے لیے متفق ہے
  • جوڑا دو برس سے الگ رہ رہا ہے، چاہے ان میں سے ایک طلاق نہیں بھی چاہتا ہے

2- جوڑے کا ایک پارٹنر اپنی صنف کے بارے میں ایک عبوری سرٹیفیکیٹ رکھتا ہے جو کہ جنسی تبدیلی کے عمل سے گزرنے والے کو قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے جاری کیا جاتا ہے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32472 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp