موسم گرما، جذبات کی گرمی اور بچوں کا سونامی


کیا کمال خبر ہے ؟

پڑھ کے اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آ رہا کہ ہم کیسے کیسے ہیرا محقق اور دانشور اپنے ہاں چھپائے بیٹھے ہیں اور ہماری یونیورسٹیاں، جو انٹرنیشنل رینکنگ میں آنے کا تو تکلف گوارا نہیں کرتیں، کیوں مستفید نہیں ہو رہیں ایسے ایسےنابغہ روزگار مقامی ماہرین سے۔

پنجاب اور سندھ بورڈ کی کتاب ہے مطالعہ پاکستان اور موضوع ہے موسم گرما۔ لکھا یہ گیا ہے کہ موسم گرما کی سختیاں میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات پہ یوں اثر انداز ہوتی ہیں کہ وہ بھی گرمی کھا جاتے ہیں اور نتیجہ نکلتا ہے، ڈھیروں بچے، کم وقفہ اور گرمی سے بے حال ماں باپ بلکہ پورا پاکستان۔

اب یہ موشگافی کس نے کی ہے، کوئی واقف حال یا بہت بڑے علامہ ہی روشنی ڈال سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ مصنف اس دشت کی کھٹنائیوں سے گزرے ہوں اور موسم گرما کی وجہ سے کثرت اولاد کے متاثرین میں شامل ہوں۔ سو اب مطالعہ پاکستان کی کتاب میں موسم گرما کے مضمرات پر روشنی ڈال کے پاکستان کی آنے والی نسلوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے منحوس سائے سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں، اور خاندانی منصوبہ بندی کے خواہش مندوں کے لئے گرما میں ٹھنڈے مقامات پہ وقت گزارنے کی رہنمائی بھی ۔

ہمیں اپنے آپ پہ بہت افسوس ہے اتنے سالوں کی پریکٹس میں بانجھ جوڑوں کا علاج بھی کیا اور ان کا بھی جو مزید بچے نہیں چاہتے تھے۔ انٹرنیشنل کانفرنسوں میں شرکت کر لی۔ نئی نئی ریسرچ باقاعدگی سے پڑھ لی اور ہم پھر بھی نکمے ہی رہے کہ ہمیں پتہ ہی نہ چل سکا کہ وطن عزیز میں کیسی کیسی دریافتیں ہو رہی ہیں۔

ہمارا خیال تھا، جس پہ اب ہم بہت شرمندہ ہیں کہ وطن عزیز کا موسم گرما، جہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ کمال، لوگ باگ شدید گرمی کے ہاتھوں بے حال، پسینے میں شرابور، مچھروں کی یلغار کے زیر سایہ کچھ بیزار ہی رہتے ہوں گے، رومانس کا خیال کم ہی آتا ہو گا۔ پر یہ پاکستانی قوم ہے سخت جان، سخت کوش، ہر گھڑی تیار کامران۔ سو دریافت یہ ہوا کہ موسم گرما ان کی طبعیت میں جولانی پیدا کرتا ہے۔

ہم انتہائی سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں کہ ہم ٹیکسٹ بک بورڈ سے رابطہ کریں اور دست بستہ عرض کریں کہ ہم ان علامہ کی شاگردی اختیار کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے یہ تھیوری پیش کی ہے، ایک اور فیلوشپ ہی سہی.

اس تھیوری کا میڈیکل کی کتابوں میں شامل کیا جانا انتہائی ضروری ہے، کہ سد باب کیا جائے ماں باپ کی گرمی اور بچوں کے سونامی کا جو ہر طرف ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کے محکمے کی ہنگامی بنیادوں پر تربیت کی ضرورت ہے تاکہ ان کی اب تک کی سب بے کار کوششوں کو کامیابی کا سرا مل سکے۔

دوسری بات جس کے لیے ہم زیادہ پر جوش ہیں کہ ہم اس تھیوری کو مغرب کے ان تمام تحقیق دانوں کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں جو ہمیں کسی خاطر میں نہیں لاتے اور دن رات اپنے ریسرچ پیپر ہمارے سر پہ تھوپتے رہتے ہیں۔ ہم ان کو دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم ایسے بھی گئے گزرے نہیں، ہمارے یہاں بھی نادر روزگار لوگ ہیں جو اپنی دانش سے دور کی کوڑی لاتے ہیں۔ مغرب کو پتہ ہونا چاہئے کیسے کیے گدڑی کے لعل ہم چھپائے بیٹھے ہیں۔

ان تمام ماہرین کو جو مغرب میں گھٹتی آبادی پہ فکر مند ہیں، آگاہ کرنا چاہئے کہ یہ ٹھنڈا موسم ہی ہے جو نہ لوگوں کو گرم ہونے دیتا ہے اور نہ ہی آبادی میں اضافہ۔ سو اب انہیں اپنے لوگوں کو موسم گرما میں پاکستان کی سیر ضرور کروانی چاہیے۔ ہمار ی وزارت سیاحت کا بھی بھلا ہو گا۔

اس تھیوری سے ان تمام جوڑوں کو بھی فائدہ اٹھانا چاہیے جو اولاد نہ ہونے کے مسائل سے دوچار ہیں۔ انہیں چاہئے کہ کچھ عرصے کے لئے سبی یا جیکب آباد منتقل ہو جائیں، مفت کا علاج ہے۔ ویسے ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ہر دو علاقوں کے رہائشی اتنی گرمی کھا کے اب کن حالوں میں ہیں۔

ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ موسم گرما میں پیدا ہونے والے تو نو ماہ قبل ماں کے پیٹ میں تشریف لاتے ہیں یعنی کہ موسم خزاں یا شروع جا ڑے میں، تو کہیں ایسا تو نہیں کہ کہنے والے موسم سرما کے گیت گانا چاہتے تھے۔ اب اگر ایسا ہے تو ہمیں سرما میں والدین کی گرمی کے اسباب دریافت کرنے پڑیں گے۔ ویسے مونگ پھلی اور مچھلی سے تعلق نکل سکتا ہے، گرانٹ مل جائے تو اس پہ کوئی ریسرچ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

ہم سائنس اور طب کی پاکستان میں ترویج پہ اتنے خوش ہیں کہ والدین کا احتجاج کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ لگتا ہے وہ آج بھی بچوں کو وہی کہانی سنا رہے ہیں جب بچہ ماں باپ سے سوال کرتا تھا کہ راتوں رات گھر میں بچہ کہاں سے آگیا تو آسمانوں سے اترنے والے فرشتے کی کہانی سنائی جاتی تھی۔

وہ واقعہ تو آپ نے سنا ہو گا جس میں بچہ نئے آنے والے کے نزول کی داستان سن کے باقی افراد خانہ کے بارے میں بھی پوچھتا ہے اور جواب میں جب سب کا نزول فرشتے، پرندے، پری اور جادوئی چھڑی کے ذریعے ہوتا ہے تو بچہ کچھ پریشان ہو کے ماں سے کہتا ہے ‘ آپ کا مطلب ہے کہ ہمارے گھرانے میں کوئی بھی قدرتی طریقے سے نہیں پیدا ہوا’

 ویسے موسم گرما کی آمد آمد ہے، کیا خیال ہے آپ کا؟

رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی اور دستور بھی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).