شہباز شریف اور وزیر اعظم عمران خان میں رابطے کی اندرونی کہانی


قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف نے الیکشن کمیشن ارکان سے متعلق خط پر وزیر اعظم کے خط کا جواب دے دیا اور اراکین کے نام بھی تجویز کر دیے۔ شہباز شریف نے بلوچستان کے رکن کے لیے شاہ محمد خان جتوئی، چیف جسٹس (ر) محمد نور مسکانزئی اور محمد رف عطا ایڈووکیٹ کے نام تجویز کیے۔

انہوں نے سندھ کے لیے جسٹس (ر) عبدالرسول میمن، خالد جاوید، جسٹس (ر) نور الحق قریشی کے نام تجویز کیے۔ شہباز شریف کی جانب سے وزیراعظم کو 7 اپریل کو لکھا گیا جوابی خط 7 صفحات پر مشتمل ہے۔ شہبازشریف نے خط میں عمران خان کو ڈئیر پرائم منسٹر کے الفاظ سے مخاطب کیا اور السلام علیکم سے بات کا آغاز کیا۔ اپوزیشن لیڈر کے خط میں کہا گیا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق سنجیدگی، اخلاص اور سچی کوشش سے اتفاق رائے تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ انہوں نے خط میں انتہائی احترام لیکن مضبوطی قانونی دلیلوں سے وزیراعظم کو جواب دیا گیا اور حفظ مراتب کا پوری طرح ملحوظ رکھاگیا۔

خط میں کہا گیا کہ وزیراعظم کے خط میں اپوزیشن لیڈر کو نہ سلام کیا گیا اور نہ ہی ان کے نام سے مخاطب کیا گیا تھا۔ وزیراعظم کے خط میں سپاٹ لہجہ اور زبان استعمال کی گئی تھی، جو دفتری یا سرکاری تقاضوں کے مطابق بھی نہیں تھا۔ اپوزیشن لیڈر نے خط میں کہا کہ یکم فروری کو خط وزیرخارجہ کی طرف سے نہیں بلکہ وزارت خارجہ کے ایڈیشنل سیکریٹری کی طرف سے بھجوایا گیا جو کہ آئین کی خلاف ورزی ہے، آرٹیکل 213 (2) اے کی تشریح کی روشنی میں اسے مشاورت نہیں کہا جا سکتا۔ خط میں کہا گیا کہ وزارت خارجہ سے بھجوائے جانے والے خط میں متعلقہ آئینی شقوں کا حوالہ بھی نہیں دیا گیا اور وزیراعظم کے تجویز کردہ ناموں کا بھی ذکر نہیں۔

اپوزیشن لیڈر نے خط میں موقف اپنایا کہ وزارت خارجہ سے بھجوائے گئے خط میں یہ بھی نہیں بتایا گیا تھا کہ وزیراعظم نے وزیرخارجہ یا وزارت خارجہ کو اختیار تفویض کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دستور کے تقاضے کے تحت مشاورت کسی اور ذریعے سے نہیں کی جا سکتی۔ شہباز شریف نے خط میں کہا کہ اس عمل سے نظریں چرانا آئینی شقوں کا احترام نہ کرنے اور انہیں نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔ خط میں کہا گیا کہ ایڈیشنل سیکریٹری وزارت خارجہ کے خط میں دئیے گئے 6 نام آپ کے سیکریٹری کے خط میں دئیے گئے ناموں سے مختلف ہیں۔ اس میں مزید کہا گیا کہ مطلوبہ تیاری، غور اور اشتراک عمل کا نہ ہونا اس امر کا بین ثبوت ہے۔

اپوزیشن لیڈر نے خط میں کہا کہ آپ کے سیکریٹری کے خط میں تحریر ہے کہ وزیراعظم نے اپنی فہرست پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائی ہے۔ اس میں مزید کہا گیا کہ یہ خط آئین کے آرٹیکل 213 (2) اے کی خلاف ورزی ہے، یہ نام صرف اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کے بعد ہی بھجوائے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں خطوط واپس لینے سے محسوس ہوتا ہے کہ درست قانونی پوزیشن تسلیم کرلی گئی ہے۔ شہباز شریف نے خط میں کہا کہ ہمارا یہی موقف رہا ہے کہ 213 دو اے کے بمطابق زبانی یا تحریری رابطہ کے ذریعے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی ذاتی شمولیت لازمی ہے اور عدالت عظمی کے فیصلوں سے بھی یہی رہنمائی ملتی ہے۔

خط میں کہا گیا کہ آپ کا استدلال کہ اپوزیشن لیڈر ازخود مشاورت شروع کرسکتا ہے آئین کے برعکس ہے۔ شہباز شریف نےکہا کہ آئین نے واضح کیا ہے کہ وزیراعظم قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے تین نام بھجوائیں گے اور آرٹیکل 254 مشاورتی عمل میں کسی بھی بہانے تاخیر کو قبول نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ تاخیر کی ایسی کوئی وجہ دکھائی نہیں دی کہ الیکشن کمیشن ارکان کی ریٹائرمنٹ سے قبل مشاورتی عمل کیوں شروع نہیں کیا گیا۔ خط میں کہا گیا کہ سندھ اور بلوچستان سے الیکشن کمیشن کے ارکان 26 جنوری 2019کو ریٹائر ہوئے۔ اپوزیشن لیڈر نے خط میں کہا کہ عدالت عظمی کے فیصلے کے مطابق مشاورت کو موثر، بامعنی، بامقصد، اتفاق رائے پر مبنی ہونا چاہئے جس میں کسی شکایت یا غیرشفافیت کی گنجائش نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ چئیرمین نیب کی تقرری کے معاملے میں بھی اپوزیشن لیڈر سے مطلوبہ مشاورت نہیں ہوئی تھی۔ شہباز شریف نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق مشاورت سے مراد وہ عملی کوشش ہے جس میں ذہنوں میں بامقصد رابطہ ہو۔ خط میں کہا کہ محض نام تجویز کر دینا یا بھجوانا کافی نہیں، عدالتی فیصلے کے مطابق ہمیں اتفاق رائے تک پہنچنے کی کوشش کرنا ہے۔ اپوزیشن لیڈر نے خط میں کہا کہ میری مخلصانہ امید ہے کہ ہم مزید قانونی تنازع سے بچتے ہوئے اتفاق رائے سے کمیٹی کو نام بھجوا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا آپ کے بھجوائے گئے ناموں پر غور کر رہا ہوں، اس حوالے سے جلد رائے دوں گا لیکن اب تک بھجوائے گئے مجوزہ ناموں کی سی ویز موصول نہیں ہوئیں۔ شہباز شریف نے خط میں کہا کہ میرے بھجوائے ناموں پر آپ بھی غور فرمائیں۔ اپوزیشن لیڈر کے خط کے ساتھ مجوزہ افراد کی سی ویز بھی بھجوائی گئی ہیں۔ خیال رہے کہ یکم اپریل کو 2 ماہ کی تاخیر کے بعد بالآخر وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن لیڈر کو خط ارسال کیا تھا جس میں الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) کے 2 اراکین کی تعیناتی کے لیے ناموں کی تحریری تجاویز طلب کی گئی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).