’آپ کے بچے کی جنس واضح نہیں تو اس کا علاج ممکن ہے‘


انٹرسیکس

انٹرسیکس وہ افراد ہیں جن کی کسی بھی وجہ سے جنس واضح نہ ہو

’میں اپنے باپ کی نظر میں ایک بددعا تھی، جیسے میرا غلط پیدا ہونا میرا ہی قصور تھا۔ میرا جسم لڑکوں جیسا تھا مگر مجھ میں نسوانیت بھی تھی۔ کہیں شادی پر جاتے تو ماں باپ مجھے سونے کے لیے لڑکوں کے حصے میں بھیج دیتے، کزنز اور ان کے دوستوں کی چھیڑ چھاڑ اب جنسی زیادتی میں بدل گئی تھی۔ آہستہ آہستہ سب اتنا عام ہونا شروع ہو گیا کہ میرے پاس گھر چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ لیکن وہ جو کزنز زبردستی کرتے تھے، وہ یہاں (ڈیرے پر) روزی روٹی کا ذریعہ تھا۔ کئی سال بعد سمجھ آیا کہ اس بازار میں تو بکتی ہی تھی، ڈیروں پر گُرو بھی بیچتے ہی رہے ہیں۔‘

40 سالہ نیلم اب لاہور کے ایک پسماندہ علاقے کی تنگ گلی میں چھوٹے سے مکان میں رہتی ہیں۔ یہ کہانی جو انھوں نے سنائی، یہ آپ کو کسی چوک پر بھیک مانگتے یا شادی یا نجی تقریب میں ناچتے خواجہ سرا یا کسی پارٹی میں ڈانس کرتا ٹرانس جینڈر اور معاشرے کے کڑی نظروں سے دور تعلقات چھپاتے ہم جنس پرست، سب ہی سنائیں گے۔ ان سب کی کہانیاں ایک سی ہیں۔

جیسا کہ راولپنڈی کی سجل نے بھی بی بی سی کو بتایا کہ ’میری عمر 13 برس تھی، میرے ماں باپ مجھے لڑکا بنا کر رکھنا چاہتے تھے، مگر میں لڑکیوں میں رہنا چاہتی تھی۔ پھر ایک دن ماں اور بھائی نے اتنا مارا پیٹا کہ میں نے گھر ہی چھوڑ دیا۔‘

نیلم اور سجل، دونوں سے جب پوچھا گیا کہ کیا انہیں علم ہے کہ ان کے ساتھ مسئلہ کیا ہے یا کیا کبھی ان کے کوئی میڈیکل ٹیسٹ ہوئے ہیں تو ان کا جواب نفی میں ہی تھا۔

یہاں تک کہ اسلام آباد کے ایک تعلیم یافتہ ٹرانس جینڈر نے بھی کبھی یہ نہیں سوچا کہ انھیں کروموسومز اور ہارمونز سے متعلق ٹیسٹ کرانے چاہییں۔

انٹرسیکس

پاکستان میں متعدد ڈاکٹرز کے مطابق سرجری کے ذریعے جنس ‘اسائین’ کی جاسکتی ہے

انٹرسیکس افراد کون ہیں؟

ایکس اور وائی کروموسومز انسان کی جنس کا تعین کرتے ہیں اور اگر بالکل سادہ الفاظ میں کہا جائے تو انٹرسیکس وہ افراد ہیں جن کی کسی بھی وجہ سے جنس واضح نہ ہو۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق انسان کروموسومز کے 23 جوڑوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ خواتین اور مردوں میں بالترتیب چھیالیس ایکس ایکس اور چھیالیس ایکس وائی کروموسومز ہوتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق تحقیق یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ صرف یہی دو طرز کے کروموسومز جوڑے ہی ایک انسان کو مرد یا عورت نہیں بناتے، بلکہ انھیں مرد یا عورت کی شکل دینے میں کئی عوامل شامل ہوتے ہیں، جیسا کہ ‘کروموسومز، ہارمونز اور ظاہری شکل و صورت۔‘

یہ تینوں عوامل کسی بھی انسان کی جنس واضح کرتے ہیں۔

طبی ماہرین کے مطابق ان تینوں میں سے کسی میں بھی تبدیلی انسان کی جنس غیر واضح بنا دیتی ہے اور ایسے افراد ہی انٹرسیکس کہلاتے ہیں۔

انٹرسیکس

کیا تیسری جنس ہونا دراصل ایک مرض ہے؟

لاہور کی نگہت (فرضی نام) کے چار بچوں کی جنس پیدائش کے وقت واضح نہیں تھی۔

لیکن جب دو بچوں کی موت واقع ہو گئی تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ باقی دونوں بچوں کنزیٰ اور اسامہ (فرضی نام) کو خواجہ سراؤں کے حوالے نہیں کریں گی۔

نگہت نے بتایا کہ ’بیٹی پیدا ہوئی تو اس کا مسئلہ بھی وہی تھا، وہی تین دن بعد پیمپر بدلتے ہوئے مجھے عجیب سا محسوس ہوا تو میں اس کو (ڈاکٹر کے پاس) لے گئی۔ اُس کی جنس واضح نہیں تھی۔

’اس کے آپریشن کا مجھے بتایا گیا۔ وہ لمحہ تو بیان نہیں کر سکتی جو اس وقت ڈاکٹروں کی باتیں سن کر میں محسوس کر رہی تھی، وہ لمحہ تو مجھ سے بیان نہیں ہوتا ہے۔‘

ڈاکٹرز نے نگہت کو بتایا کہ ان کی بیٹی اور بیٹے کو جنس ‘اسائین’ کی جاسکتی ہے، یعنی اس کا تعین ممکن ہے۔

نگہت کے 17 سالہ بیٹے اسامہ بھی ایسے ہی مسئلے سے دوچار تھے۔ ان کا علاج لاہور میں ہی بچوں کے پیدائشی نقص دور کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم نے کیا ہے۔

ڈاکٹر مرزا لیاقت

ڈاکٹر مرزا لیاقت علی غیر واضح جنس کو ‘پیدائشی نقائص’ میں سے ایک ‘قابلِ علاج مرض’ قرار دیتے ہیں

‘قابلِ علاج مرض‘

واضح رہے کہ پاکستان میں غیرسرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریبا پانچ لاکھ جبکہ سرکاری اندازے کے مطابق ساڑھے دس ہزار افراد ایسے ہیں جن کی جنس پیدائشی طور پر واضح نہیں ہوتی۔ ان افراد کو اکثر معاشرے میں بدترین رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اب ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ہر وہ شخص ‘جس کی جنس واضح نہیں، خواجہ سرا نہیں ہے، اور یہ کہ ایسے افراد کا علاج بھی ممکن ہے۔‘

لاہور میں بچوں کے اینڈوکرانولوجسٹ ڈاکٹر مرزا لیاقت علی کہتے ہیں کہ ‘آپ کے ارد گرد اگر کوئی لڑکا ایسا ہے جو، مثال کے طور پر، لڑکیوں کے کھلونوں سے کھیلنا زیادہ پسند کرتا ہے، یا اُسے گلی میں کھیلنے کی بجائے امی کا ہاتھ بٹانا زیادہ پسند ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں’۔

ڈاکٹر مرزا لیاقت علی غیر واضح جنس کو ‘پیدائشی نقائص’ میں سے ایک ‘قابلِ علاج مرض‘ قرار دیتے ہیں۔ وہ جناح ہسپتال میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہونے کے علاوہ لاہور میں غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد خصوصاً ایسے بچوں کے علاج کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ‘برتھ ڈیفیکٹس فاؤنڈیشن’ کے ساتھ بھی منسلک ہیں اور کہتے ہیں کہ پیدائش کے وقت ہر والدین اور ہر ڈاکٹر کو بچے کے جینیٹیلیا ضرور دیکھنے چاہییں۔

‘بچے کا پیپمپر اتار کر ضرور دیکھنا چاہیئے کہ وہ کس طرح کا نظر آ رہا ہے۔ اگر آپ کو وہ ظاہری طور پر مکمل لڑکا یا لڑکی نظر نہیں آ رہا تو پھر اسے ہمارے (ڈاکٹرز کے) پاس لے کر آئیں’۔

پاکستان میں اس مسئلے کی سمجھ نہ ہونے کی وجہ سے عام طور پر ہر اس شخص کو خواجہ سرا ہی تصور کیا جاتا ہے جس کے ظاہری جسمانی اعضا مرد یا عورت کی تفریق نہ کرتے ہوئے غیر واضح ہوں۔

ڈاکٹر مرزا لیاقت علی کے مطابق انٹرسیکس افراد میں کم از کم تین ایسے پیدائشی نقائص ہیں جنھیں آپریشن اور ادویات کے ذریعے دور کیا جا سکتا ہے یا ان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

بچوں کے سرجن پروفیسر افضل شیخ اب تک کئی ایسے بچوں اور بڑوں کا علاج کر چکے ہیں جن کی جنس واضح نہیں تھی، اور ان کے لیے ڈاکٹروں نے جنس کا تعین کر لیا تھا۔ وہ کہتے ہیں ایسے مریض جن میں ہارمونز کے مسائل ہوں، ان کا علاج آسان بھی ہے اور کامیاب بھی۔ تاہم پیچیدہ جینیاتی مسئلہ ہو تو اس میں ابھی بہت زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔

لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں، برتھ ڈیفیکٹس فاؤنڈیشن کے ترجمان عنصر کہتے ہیں کہ یہ تمام ٹیسٹ اس قدر مہنگے ہیں کہ ایک عام شخص ان کی استطاعت ہی نہیں رکھتا۔

’یہ ٹیسٹ بھی ہر جگہ دستیاب نہیں، مثال کے طور پر یہاں شوکت خانم میموریل ہسپتال میں ان کی سہولت موجود ہے لیکن وہ بھی خاصی مہنگی ہے، نجی اسپتال تو پہنچ سے بالکل باہر ہو گئے ہیں’۔

انٹرسیکس

زندگی بھر ادویات کا استعمال؟

اس تمام تر عمل کا ایک بڑا منفی پہلو ادویات ہیں۔

ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ان آپریشنز سے گزرنے والے افراد کو ہارمونز قابو میں رکھنے کے لیے عمر بھر ادویات کھانی پڑیں گی، ایسا نہ کرنے کے صورت میں ان کی ظاہری شکل و صورت بدل سکتی ہے، یہاں تک کہ موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ لیکن کیا یہ ادویات پاکستان میں دستیاب ہیں؟ تو اس کا جواب ہے’نہیں’۔

نگہت کہتی ہیں کہ انھیں اپنے بچوں کی ادویات عام مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں، ‘بچوں کو جو گولی روزانہ کی بنیاد پر دینی ہے، وہ میں تین دن کے وقفے سے دیتی ہوں۔ انھیں دوا نہ ملے تو ان کی طبیعت بگڑنے لگتی ہے۔ میرا ایک بیٹا اس وقت مر گیا جب اس کی دوا بند ہوئی۔ میں نہیں چاہتی کہ میرے باقی بچوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو، لیکن میرے پاس اور کوئی راستہ بھی نہیں’۔

برتھ ڈیفیکٹس فاؤنڈیشن کے چیئرمین عنصر جاوید خان کے مطابق ‘یہ ادویات پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں سو ایک ہزار کی دوا پندرہ سے بیس ہزار میں ملتی ہے، پاکستان میں ان کی مارکیٹ نہیں سو انھیں یہاں کوئی رجسٹر بھی نہیں کراتا۔‘

پروفیسر افضل

پروفیسر افضل شیخ

بین الاقوامی ادارے سرجری کے خلاف کیوں ہیں؟

متعدد بین الاقوامی ادارے اور ایل جی بی ٹی کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں ان سرجریز کے خلاف ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ ادویات کا عمر بھر استعمال بھی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘وہ ساری زندگی ادویات کیوں لیں جبکہ انھیں کوئی بیماری نہیں ہے؟’ ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد خصوصاً کم عمری میں کی گئی ان سرجریز کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ ‘شعور کی عمر کو پہنچنے اور بچوں کی رضامندی تک انہیں ایسی کسی سرجری نہیں کرنی چاہییے جو ان کے جسمانی اعضا کی شناخت بدل دے۔‘

جیسا کہ خود عالمی ادارہ صحت کے مطابق بچپن میں جنس کے تعین کے لیے کی گئی ان سرجریز سے یہ ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ یہ بچے بڑے ہو کر کیا اس جنس کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکیں گے جو انھیں ان کے والدین اور ڈاکٹرنے بچپن میں ایک سرجری کے ذریعے متعین کر دی تھی۔

طبی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ واضح نہیں کہ اس علاج کے طریقے کے بعد ان افراد کی تولیدی صلاحیت کام کر سکے گی یا نہیں لیکن کنزیٰ اور اسامہ کے والدین سمجھتے ہیں کہ خواجہ سراؤں کے لیے انتہائی تنگ نظر معاشرے میں ان کے بچے اب ایک مرد یا عورت کے صورت میں زندگی ضرور گزار سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp