خواتین کی تضحیک آمیز میمز: لمز میں فیس ُبک گروپ کے خلاف مظاہرہ


لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) میں آٹھ مارچ کو طلبا و طالبات کی ایک بڑی تعداد نے خواتین اور بالخصوص یونیورسٹی طالبات کے خلاف تضحیک آمیز پوسٹس شیئر کرنے والے ایک فیس بک گروپ کے منظر عام پر آنے کے بعد مظاہرہ کیا۔

لمز میں زیر تعلیم نوال فاطمہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم سب یکجا ہوئے تھے کیونکہ کچھ دن پہلے فیس بُک پر ایک ایسے گروپ کی نشاندہی کی گئی جس میں خواتین کے خلاف تضحیک آمیز پوسٹس شئیر کی گئی تھیںجس کے بعد ہم نے اپنا فرض سمجھا کہ انتظامیہ کے سامنے یہ معاملہ اجاگر کیا جائے۔‘

مظاہرے کے منتظمین کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اس فیس بُک گروپ میں لگ بھگ 600 لوگ تھے جن میں سے اکثریت لمز کے طلبا کی تھی۔ اس گروپ میں ایسا تضحیک آمیز مواد شیئر کیا جاتا تھا جو خواتین اور بالخصوص یونیورسٹی کی طالبات کو نشانہ بناتا تھا۔

منتظمین کے بیان میں واضح کیا گیا کہ گروپ چلانے والوں نے مزاح کے نام پر خواتین کی جنسیت پر مبنی مواد شئیر کیا۔ اس کے علاوہ بلکہ جنسی زیادتی سے متعلق لطیفے بھی شئیر کیے جاتے تھے۔

جب خواتین سٹوڈنٹس کو اس گروپ کا علم ہوا تو انھوں نے آفس آف سٹوڈنٹ افیئرز کے ڈین سے اس معاملے پر کارروائی کا مطالبہ کیا۔

پیر کے روز آفس آف سٹوڈنٹ افیئرز کے ڈین عدنان خان نے موقف حاصل کرنے کے لیے صرف چند سٹوڈنٹس کو مدعو کیا تھا تاہم 200 سے زائد طلبا و طالبات یکجہتی کے طور پر دفتر کے باہر جمع ہوگئے۔

عدنان خان کی متاثرہ طالبات سے ایک لمبی نشست ہوئی جس کے بعد انتظامیہ کی جانب سے منگل کے روز باضابطہ بیان میں شکایات کا ازالہ کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی اور اس کو ایک بدقسمت واقعہ قرار دیا۔

بیان کے مطابق اس واقعے سے جنس کے معاملات سمیت باہمی عزت کے موضوعات پر بحث شروع کرائی جاسکتی ہے جو تمام طلبا کے لیے مفید ثابت ہوگی۔

فیس بک گروپ خواتین مخالف جذبات کو فروخ دے رہا تھا

نوال فاطمہ نے اس گروپ کے حوالے سے بتایا کہ ’اس کا نام ’ڈینک پُنا میمز فیٹ لمز‘ تھا اور اس گروپ کو بنانے اور چلانے والے چار لڑکوں کا تعلق ہماری اپنی یونیورسٹی سے ہی تھا۔ ابتدا میں تو مزاحیہ میمز شئیر کیے جاتے تھے مگر وقت کے ساتھ اس پر ایسا مواد دیکھنے میں آیا جو خصوصاً خواتین کے لیے کافی دل شکن تھا۔‘

’اس مظاہرے کا مقصد صرف یہ تھا کہ اس گروپ کے منظر عام پر آنے کے بعد خواتین میں جو غصہ پایا جا رہا تھا، اس کا ایک مناسب انداز سے اظہار کیا جائے۔‘

لمز میں فیمینسٹ سوسائٹی کی سابقہ صدر مریم ندیم نے کہا ’ہماری یونیورسٹی خواتین کے لیے ایک محفوظ جگہ ہے۔ ہمارا ایک دوسرے سے ایک عزت کا تعلق ہے اور اسی وجہ سے اس گروپ کا منظر عام پر آنا ہمارے لیے چونکا دینے والا تھا، جس سے محفوظ جگہ کے تصور کی دھجیاں بکھر گئیں۔‘

مریم ندیم کے مطابق یہ انکشاف ان کے لیے حیران کن نہیں تھا کہ مرد ایسی سوچ رکھتے ہیں بلکہ حیران کن یہ تھا کہ ان لوگوں کو اپنے جنس پرست خیالات کے اظہار کے لیے ایک علیحدہ گروپ بنانا پڑا جس میں وہ بلا جھجک اپنی سوچ کا پرچار کرتے رہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ہم نے جب اس بارے میں آواز اٹھائی تو ہمیں بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور ہمیں طرح طرح کی بات کی گئی کہ ہم مزاح کو نہیں سمجھتے اور دکھ بھی یہ ہے کہ ایسی منطق کا استعمال دفاع میں کیا جارہا ہے۔‘

طلبا کے مطالبات کیا ہیں؟

ایک اور طالبہ نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’گذشتہ سال سے دیگر تعلیمی اداروں میں بہت سے ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں خواتین کو ہراساں کیا گیا تو ہم نے اس گروپ کو بھی اِسی پیرائے میں دیکھا کہ یہ گروپ اور اس پر پائے جانے والا مواد بھی پدر شاہی نظام اور خواتین مخالف جذبات کو فروغ دے رہا تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’جب گروپ چلانے والوں سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف ایک مذاق تھا، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں مزاح اور تضحیک آمیز گفتگو میں لوگوں کو تفریق کرنا نہیں آتا۔‘

’ہم سزا سے زیادہ اصلاح چاہتے ہیں۔‘ یہ کہنا تھا پولیٹیکل سائینس کی طالبہ کا جن کے مطابق ان کے اس مظاہرے سے معاشرے میں اور بالخصوص یونیورسٹی میں پائے جانے والے زہریلے ماحول سے مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی۔

مظاہرے کے منتظمین کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ یہ مسئلہ انفرادی فعل سے بڑھ کر ہے اور اس مظاہرے کا مقصد 600 لوگوں کو سزا دینا نہیں بلکہ ایسا ماحول پیدا کرنا ہے جس سے ان حساس معاملات پر بحث ہوسکے۔

مظاہرین نے انتظامیہ سے مندرجہ ذیل مطالبات بھی کیے ہیں:

  • سائبر ہراسگی اور سائبر جنسی ہراسگی کے حوالے سے آگاہی پھیلائی جائے۔
  • یونیورسٹی کو محفوظ بنانے کے لیے ملزموں کی اصلاح کی جائے۔
  • جنسی حساسیت سے متعلق ورکشاپس اور تربیتی پروگرامز کا انعقاد کرایا جائے۔
لمز یونیورسٹی

LUMS

لمز انتظامیہ کا موقف

یونیورسٹی میں آفس آف سٹوڈنٹ افئیرز کے ڈین عدنان خان نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں بذریعہ ای میل کچھ طلبا نے فیس بک پر جنس پرست مواد پائے جانے کی شکایت کی اور ان کے بقول اس مواد کو شیئر کرنے والے بھی لمز یونیورسٹی کے ہی طلبا تھے۔

’میں نے ان طلبا کو پیر کے روز اس پر گفتگو کرنے کے لیے بلایا لیکن مجھے نہیں اندازہ تھا کہ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اتنے سارے لوگ آجائیں گے تو اس موقعے کو بہتر سمجھتے ہوئے میں نے ان کو یقین دہانی کرائی کہ یونیورسٹی میں جنسی حساسیت سے متعلق آگاہی کو بڑھایا جاسکتا ہے۔‘

عدنان خان کے مطابق اگر طلبا نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر کوئی کارروائی چاہتے ہیں تو وہ یونیورسٹی میں موجود سٹوڈنٹ جسٹس ڈیپارٹمنٹ سے رجوع کرسکتے ہیں البتہ ہمارا انصاف کا نظام سزا کے بجائے اصلاح کو ترجیح دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp