یاسرہ رضوی ہیں نا


یوں تو چھوٹا منہ بڑی بات لگ رہی ہے لیکن کوئی بات نہیں۔ ہمیں عادت ہے یوں ہی چادر سے باہر پیر پسارنے کی۔ ہم ٹھہرے نثر لکھنے والے چھوٹے لوگ۔ ادب کی سب سے اعلی و ارفع صنف شاعری پر کسی بھی قسم کا تبصرہ کرنا یوں تو ہماری اوقات سے باہر ہے۔ لیکن آج یہ جوئے شیر بھی کھینچ لائی جائے گی۔ آپ دیکھتے جائیے۔

ہمارا شاعری سے تعلق اتنا ہی پرانا ہے جتنے ہم خود۔ والدین کو موسیقی سے گہرا شغف تھا۔ لہذا بہت سی شاعری تو یوں ہی یاد ہو گئی۔ والد صاحب کو علاقائی اور صوفی کلام میں دلچسپی تھی اور والدہ اردو غزلیں پسند کرتی تھیں۔ اپنی طرف سے ہم ’گانے‘ ازبر کرتے تھے لیکن ہوش سنبھالنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ تو غالب، فیض، شاہ حسین اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام تھا۔ وہ سب جو لوگ بڑے ہو کر پڑھتے ہیں ہم بچپن میں ہی رٹ چکے تھے۔

لڑکپن میں آئے تو بھی ان ہی قدیم شعراء تک محدود رہے۔ لائبریری میں اور کچھ تھا ہی نہیں۔ ہمیں یہ علم ہی نہیں تھا کہ جدید شعراء کون ہیں کہاں ہیں۔ ملا کی دوڑ مسجد تک ہی محدود رہی۔

جب جوانی کے وسط میں پہنچے تو خدا نے سوشل میڈیا کی روشنی سے نوازا اور ہمارے کند ذہن کو ایک نئی راہ دکھائی۔ نت نئے لکھنے والے نظر آئے۔ کچھ گالیاں لکھتے ہیں تو کچھ رجز۔ لیکن داد دینی پڑے گی کہ لکھنے سے باز نہیں آتے۔

ہم نے ہمیشہ اردو زبان کی زبوں حالی کے قصے ہی سنے۔ ہمیں لگتا تھا کہ شاعر اور ادیب ایک متروک جنس ہیں۔ کچھ اور وقت گزرا تو غالب کا وقت پتھر کا زمانہ کہلائے گا۔ شاعر اب کہاں پیدا ہوں گے۔ وہ دن گئے جب خلیل فاختہ اڑاتا تھا۔

اس خستہ حال تحریر کے ذریعے ہم ٹوئٹر کا شکریہ ادا کرنا چاہیں گے جس نے ہمیں عہد حاضر کی ترجمان نوجوانوں کے ہر درد کی نگہبان یاسرہ رضوی سے متعارف کرایا۔

یہ چاند سا روشن چہرہ، آنکھوں کا بکھرا کاجل اور آواز کا سوز دیکھتے ہی دیکھتے سب دلوں کی دھڑکن ہوا۔ شاعری کرتی تو خوب ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ آہیں بھی خوب بھرتی ہیں۔ کسی غیر مرئی نقطے کی طرف اپنی توجہ مرکوز رکھتی ہیں اور فوکس ہٹنے نہیں دیتیں۔

ہم تو شاید ان کی شاعری سے محروم ہی رہتے کہ یاسرہ ہم جیسے قدردان کو کب کا بلاک کر چکی تھیں لیکن خدا بھلا کرے ان دوستوں کا کہ جنہوں نے گوگل پر جا کر ویڈیو ڈاؤن لوڈ کرنے کا طریقہ سیکھا اور ہمیں دھڑا دھڑ ویڈیوز بھیجیں۔ زندگی سائیکل پر گول مارکیٹ کا طواف جانیے۔ یاسرہ رضوی نے ہمیں بلاک کیا۔ ہم ان کم بختوں کو کریں گے۔

بہت سے گئے گزرے شعراء نے انہیں تکریم بخشنے کے چکر میں ان کے بحر اور وزن میں شاعری کرنے کی کوشش کی۔ لیکن صاحب مرغا پیٹ پر پر چپکا لینے سے سرخاب نہیں بن سکتا۔ یہ نالائق بھی اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ اور یاسرہ رضوی یوں ہی ادب کے افق پر ایک دم دار ستارے کی طرح ٹم ٹم چمکتی رہیں۔

اب آپ خود ہی بتائیے۔ اس شعر کا کوئی مقابلہ ہے؟
آپ سے مجھ کو تم کر دو
ہوش کا کیا ہے، گم کر دو

اگر مرزا غالب زندہ ہوتے تو مومن خان مومن کی بجائے یاسرہ رضوی سے دیوان کے بدلے میں یہ شعر مانگ بیٹھتے۔ جون ایلیا علیحدہ پھٹکارتے کہ ان کو اپنی مارکیٹ ڈاون ہونے کا خطرہ ہوتا۔ فیض صاحب شاید چپ سادھ لیتے اور آخری عمر تک بیروت ہی رہتے (وہ بھی گم صم) ۔

خیر مرنے والے مر گئے۔ جو زندہ ہیں ان کی فکر کی جائے۔ یاسرہ رضوی ایک قومی اثاثہ ہیں۔ بچوں اور نوجوانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے عہد کے شعراء کو جانیں۔ اس لئے حکومت سے التماس ہے کہ میٹرک کے سلیبس سے میر انیس کا نام چٹ کیا جائے اور یاسرہ رضوی کو جگہ دی جائے۔ فلمی صنعت کو بھی چاہیے کہ ان کی شاعری کی دھنیں ترتیب دے کر اسے فلموں کا حصہ بنایا جائے۔ کمپوزرز کی کمی کا رونا نہ رویا جائے۔ اپنے طاہر شاہ فارغ ہی تو ہیں۔

جن قوموں نے اپنے عظیم شعراء کو ستایا
ان کم بختوں نے رکشہ ہی چلایا (وہ بھی بغیر سواری کے )

یاسرہ یوں تو ہمت کا مینار پاکستان ہیں اور اپنے جل ککڑے ناقدین کو کوئی گھاس نہیں ڈالتیں لیکن پھر بھی اگر خوامخواہ کو ان بلاک کر دیں گی تو ان کا کیا جائے گا۔
اللہ نے آپ کو بہت دینا ہے یاسرہ جی۔

جاتے جاتے بس یہ آخری شعر سنتے جائیے۔
کہہ دو مجھ سے کہ چائے دے دو
لیکن واپس میری رائے دے دو

آپ لوگ بھی اپنی رائے اپنے تک ہی محدود رکھئے۔ اظہار کے لئے یاسرہ رضوی ہیں نا۔
گستاخی معاف، کہا سنا معاف، چھوٹے منہ کی بڑی بات معاف۔
مولا خوش رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).