نقل نہ روکیے، اوپن بک ٹیسٹ لیجیے


”حکومت امتحانات میں نقل روکنے میں ایک بار پھر بری طرح ناکام ہوگئی۔ ۔ ۔ امتحانی مراکز پر نقل مافیا اور بُوٹی مافیا کا راج۔ ۔ ۔ کل کی طرح آج کا پرچہ بھی شروع ہونے سے پہلے ہی واٹس ایپ پر جاری ہوگیا۔ ۔ ۔ امتحان دینے والے طلبا پوری آزادی سے نقل میں مصروف۔ ۔ ۔ “ کم و بیش ہر چینل کے رپورٹرز اپنے اپنے انداز میں ایسی ہی خبریں بار بار پیش کررہے تھے۔ صبح نو بجے سے دوپہر بارہ بجے تک یہی خبریں ”گرم ترین“ رہیں۔

شاید ہی کوئی سال ایسا گزرتا ہو جب اسکولوں، کالجوں اور جامعات کے امتحانات میں اس طرح کی خبریں میڈیا کی زینت نہ بنتی ہوں۔ غضب خدا کا! امتحانات نہ ہوئے، تعلیمی نظام کا مرثیہ ہوگئے کہ جسے ہر کوئی منفرد و جداگانہ انداز سے پڑھ رہا ہے۔ پیرایہٴ بیان ضرور مختلف ہے لیکن موضوع میں سرِمُو انحراف نہیں۔ بین کر کرکے، مسئلے کا بیان سب کررہے ہیں لیکن ”ممکنہ حل“ پر بات کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں ؛ حالانکہ ایک ممکنہ حل ہمارے سامنے موجود ہے۔ ۔ ۔ اور وہ ہے ”اوپن بُک ٹیسٹ“ (Open Book Test) ۔

آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ اوپن بُک ٹیسٹ دراصل ایک ایسا امتحانی طریقہٴ کار ہے جس کے تحت طالب علموں کو آزادی ہوتی ہے کہ وہ اپنی متعلقہ درسی کتب اور لیکچر نوٹس وغیرہ کمرہٴ امتحان میں لے جاسکتے ہیں اور پوری آزادی سے استعمال کرسکتے ہیں۔

یادش بخیر، راقم کو پہلی بار 1991 ء میں اوپن بُک ٹیسٹ کا تجربہ اس وقت ہوا جب وہ شعبہ طبیعیات، جامعہ کراچی میں بی ایس سی آنرز کے سالِ اوّل، پہلے سمسٹر کا امتحان دے رہا تھا۔ اس سمسٹر میں ہمیں استادِ محترم پروفیسر ڈاکٹر خورشید اطہر صدیقی نے پڑھایا تھا۔ سر خورشید کا شمار ہمارے شعبے کے سخت مزاج لیکن قابل ترین اساتذہ میں ہوتا ہے، جن کے شاگرد آج نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں علمی و تحقیقی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

پورے سمسٹر میں سر خورشید نے سارا زور اس بات پر صرف کیا کہ نصاب میں شامل تصورات (concepts) ہم کم عقلوں کی سمجھ میں آجائیں۔ پھر جب امتحان کا دن آیا تو کمرہٴ امتحان میں داخل ہوتے ہی اعلان کردیا: ”یہ اوپن بُک ٹیسٹ ہے اور آپ اپنی ٹیکسٹ بُکس نکال کر استعمال کرسکتے ہیں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ امتحانی پرچہ حل کرکے مجھے دے دیں، “ اور ہم سب ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے کہ یہ کس قسم کا امتحان ہے۔

سوالیہ نشان جیسے ہمارے چہرے دیکھ کر سر خورشید کہنے لگے، ”ارے بھئی! فزکس (طبیعیات) کے یہ لمبے لمبے فارمولے خود مجھے یاد نہیں ہوتے، تو میں کیسے توقع رکھوں کہ آپ کو ہر فارمولا یاد ہوگا۔ پرچہ حل کرنے کے لئے آپ بے فکری سے اپنی ٹیکسٹ بک استعمال کرسکتے ہیں۔ “ خیر، امتحان شروع ہوا اور ”نقل کی کھلی اجازت“ ہونے کے باوجود، بیشتر طالب علم پرچہ ادھورا چھوڑ کر ہی اٹھ گئے۔ اب اس امتحان کا نتیجہ کیا رہا ہوگا؟ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔

انٹرنیٹ کھنگالیں گے تو اوپن بُک ٹیسٹ کی جزئیات، تفصیلات، خوبیاں اور خامیاں آپ کے علم میں آجائیں گی؛ اور آپ کو یہ اندازہ بھی ہوجائے گا کہ اس طریقہٴ امتحان کو مؤثر طور پر نافذ کرنے کے لئے تدریس کے طریقوں میں کلیدی تبدیلیاں کرنا ضروری ہے، ورنہ یہ بھی کھلم کھلا نقل کا عنوان بن کر رہ جائے گا۔ بات صرف پاکستان کی نہیں بلکہ دنیا بھر میں طالب علموں کو اس طرح سے تیار کیا جاتا ہے کہ وہ امتحان میں ”بہترین کارکردگی“ کا مظاہرہ کریں اور ”اچھے نمبر لے کر“ کامیاب بھی ہوں۔

کہیں اس چیز کا پیمانہ، حاصل کردہ ”فیصد نمبروں“ میں ہوتا ہے تو کہیں اسے ”جی پی اے“ (گریڈ پوائنٹ ایوریج) کے ذریعے ناپا جاتا ہے۔ پیمانہ کوئی بھی ہو، تدریسی سرگرمیوں کا اصل مقصد امتحان میں کامیابی ہی رہتا ہے۔ ۔ ۔ یعنی جیسا امتحانی طریقہٴ کار ہوگا، درس و تدریس کا انداز بھی اسی کی مطابقت میں رہے گا۔

اب اگر ہم پاکستان کے تعلیمی منظر نامے پر نگاہ ڈالیں تو ہمارا زیادہ زور کسی بھی مضمون کو سمجھنے / سمجھانے سے زیادہ اسے ”رٹنے / رٹانے“ پر ہی رہتا ہے ؛ کیونکہ ”امتحانات“ میں ہم اپنے بچوں کی قابلیت اور صلاحیت کو ”حافظے“ کی بنیاد پر جانچتے ہیں، نفسِ مضمون سے واقفیت کی بنیاد پر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں ”رٹّافکیشن اِز دی بیسٹ کوالی فکیشن“ (رٹّا لگانا ہی بہترین قابلیت ہے ) کو قبولیتِ عام کی سند حاصل ہے۔ کیا ہمارے ماہرینِ تعلیم اور اساتذہ نے اس پہلو پر غور کیا ہے کہ امتحان دینے کے کچھ دن بعد ہی بیشتر طالب علموں کو اپنا نصاب کیوں یاد نہیں رہتا؟ (اور اگر یاد رہتا بھی ہے تو رٹے رٹائے جملوں کی شکل میں، جن کے مفہوم سے وہ خود بھی آشنا نہیں ہوتے۔ )

حافظے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، لیکن اگر کوئی بات بغیر سمجھے ہوئے حافظے کا حصہ بنالی جائے تو وہ صرف ”اطلاع“ ہی رہے گی اور محض ”معلومات“ میں اضافے کا سبب بنے گی۔ ۔ ۔ لیکن اس سے علم میں اضافہ کبھی نہیں ہوگا۔ علم میں اضافے کے لئے ضروری ہے کہ جو کچھ بھی حافظے میں جائے وہ تجزیے، موازنے، سوچ بچار، جرح اور تنقید جیسی ”فکری چھلنیوں“ (Intellectual Filters) سے گزر کر پہنچے ؛ اور طویل مدت کے لئے حافظے میں محفوظ بھی ہو۔ یقین کیجئے کہ اگر اس انداز میں علم حاصل کیا جائے گا تو وہ برسوں تک (ممکن ہے کہ بڑھاپے میں بھی) حافظے میں محفوظ رہے گا۔ ۔ ۔ اپنی جزئیات اور مفاہیم کے ساتھ۔

کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اپنے نظامِ تعلیم میں سارا زور تو اس بات پر صرف کریں کہ بچوں کو ”رٹُو طوطا“ بنا دیا جائے لیکن یہ امید ربھی کھیں کہ ہمیں ہر شعبے میں قابل، لائق فائق اور جاگتے اذہان رکھنے والے نوجوان میسر آجائیں؟ یقین مانئے کہ پاکستان میں نقل مافیا اور بُوٹی مافیا اتنے مضبوط ہوچکے ہیں کہ انہیں روایتی طریقوں سے شکست نہیں دی جاسکتی؛ اس کے لئے ہمیں کچھ مختلف، کچھ الگ، کچھ نیا سوچنا ہوگا جو امتحان میں نقل کی اہمیت ہی کو ختم کردے۔ ۔ ۔ اساتذہ مجبور ہوجائیں کہ وہ شاگردوں کو ”سمجھا کر“ پڑھائیں، جبکہ طالب علم بھی ”سمجھ کر“ پڑھنے پر مجبور ہوں۔

اس ضمن میں ”اوپن بُک ٹیسٹ“ ہماری مدد کرسکتا ہے۔ البتہ، ایسے کسی امتحان کا پرچہ بنانے کے لئے روایتی سوچ کے حامل اساتذہ سے کام نہیں چلے گا، جو برسوں اور عشروں سے ایک لگے بندھے انداز میں امتحانی پرچے سیٹ کرتے آرہے ہیں۔ اوپن بُک ٹیسٹ جہاں پڑھانے والے اساتذہ اور پڑھنے والے طالب علموں کو ”سمجھنے سمجھانے“ کا پابند بناتا ہے، وہیں یہ امتحانی پرچہ مرتب کرنے والے استاد/ ماہرِ تعلیم سے بھی ایسی قابلیت کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ امتحانی پرچے کے لئے اس انداز میں سوالات ترتیب دے جو متعلقہ نصاب (کیریکیولم) سے متعلق طالب علم کی سمجھ بوجھ کو جانچنے میں بہتر طور پر مددگار ثابت ہوسکیں۔

وزیراعظم عمران خان اپنی گفتگو میں بار بار تعلیم اور نظامِ تعلیم بہتر بنانے پر زور دیتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ تعلیم سے متعلق وزیراعظم صاحب کی کوئی ”ٹاسک فورس“ موجود بھی ہے یا نہیں ؛ اور اگر ہے تو اس میں کون لوگ شامل ہیں۔ تاہم اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اوپن بُک ٹیسٹ کا تجربہ دنیا کے مختلف ممالک کے تعلیمی و تدریسی اداروں میں کامیابی سے استعمال کیا جارہا ہے۔ مناسب ہوگا کہ اس تجربے سے فائدہ اٹھایا جائے اور دیکھا جائے کہ ہم اس نظام کو کس طرح اپنے ملک میں مؤثر طور پر نافذ کرتے ہوئے، نقل مافیا اور بُوٹی مافیا کو شکستِ فاش دے سکتے ہیں۔ ۔ ۔ اور اپنی نئی نسل کو حقیقی دنیا کے چیلنجوں کے لئے بہتر طور پر تیار کرسکتے ہیں۔

تعارف

مصنف 1987 ء سے سائنسی صحافت میں ہیں۔ سائنس میگزین، سائنس ڈائجسٹ اور گلوبل سائنس کے مدیر رہ چکے ہیں۔ سائنسی ترجمے پر خصوصی مہارت رکھتے ہیں اور اب تک درجن بھر سے زیادہ سائنسی کتب کا اُردو ترجمہ کرچکے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اسٹیفن ہاکنگ کی آخری کتاب کا اُردو ترجمہ بھی کیا ہے جو ”بڑے سوالوں کے مختصر جواب“ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ آج کل ایکسپریس میڈیا گروپ کی اردو ویب سائٹ express۔ pk سے بطور بلاگ ایڈیٹر وابستہ ہیں۔ ان سے فیس بُک آئی ڈی aleem1971 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).