کشیمر میں مرکزی شاہراہ کی بندش پر سیاسی و سماجی حلقوں کی شدید تنقید


عمر عبداللہ

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں تیس سالہ شورش کے دوران یہ پہلا موقعہ ہے کہ پارلیمانی انتخابات سے قبل حکومت نے ہر ہفتے بدھ اور اتوار کے روز بڑی شاہراہوں پر عام ٹریفک کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی ہے۔

سابق وزیراعلی اور نیشنل کانفرنس کے سربراہ عمرعبداللہ نے گورنر انتظامیہ کے اس فیصلے پر شدید تنقید کی ہے اور اسے واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’میں بیس سال سے الیکشن لڑرہا ہوں۔ جب اسمبلی پر خود کش بم حملہ ہوا تو زیادہ لوگ مارے گئے، تب بھی لوگوں کو قید نہیں کیا گیا۔`

ان کا مزید کہنا تھا کہ انتخابات کو بہانہ بنا کر لوگوں کو اجتماعی سزا دی جارہی ہے۔

’اسرائیل کی طرح انڈیا کشمیر میں قابض طاقت بن جائے گا‘

’سیاح نہ آئے تو بچوں کو کیا کھلائیں گے؟‘

کشمیر میں اخبارات سادہ کیوں شائع ہوئے؟

اس پابندی سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ نیشنل ہائی وے کشمیر کے دس اضلاع کے درمیان رابطے کا واحد ذریعہ ہے۔ اس پابندی سے نہ صرف لوگوں کو ان اضلاع کے درمیان آمد ورفت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ شاہراہ کی دونوں جانب دوکاندار بھی پریشان ہیں۔

شوکت احمد

شوکت احمد کے بقول سمجھ نہیں آتا کہ یہ انتخابات ہیں یا فوجی مشق

ایک متاثر دکاندار شوکت احمد کا کہنا ہے کہ ’یہ عجیب فیصلہ ہے۔ میں کھیل کود کا سامان بیچتا ہوں۔ دکان کھولی لیکن خریدار نہیں کیونکہ سڑک پر کرفیو ہے۔ بینک سے قرض لیا تھا، کیا حکومت اس قرض کو معاف کرے گی۔ سمجھ نہیں آتا کہ یہ انتخابات ہیں یا فوجی مشق۔`

241 کلومیٹر طویل اس شاہراہ پر پابندی کے دنوں میں صرف فوج اور سکیورٹی فورسز کی گاڑیوں کو چلنے کی اجازت ہوگی۔

عوامی اور سیاسی حلقوں نے بھی اس فیصلے کی شدید مخالفت کی ہے، یہاں تک کے فوج کے سابق سربراہ وی کے سنگھ نے اس پابندی کو ایک ڈمب آئیڈیا (بے وقوفانہ خیال) قرار دیا ہے، تاہم انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ عوام کی سہولت کے لیے کیا گیا ہے۔

کشمیر کے ڈویژنل کمشنر بصیرخان نے کہا کہ یہ ایک عارضی پالیسی ہے اور انتخابات کے بعد یہ پابندی ہٹا دی جائے گی۔

یاد رہے کہ 14 فروری کو پلوامہ میں فورسز پر ہوئے خود کش کاربم حملے میں 44 اہلکار ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد کشمیر میں سیکورٹی کو مزید سخت کر دیا گیا ہے۔

ہائی وے کی بندش کے خلاف احتجاج

عوامی اور سیاسی حلقوں نے بھی اس فیصلے کی شدید مخالفت کی ہے

سیکورٹی پابندیوں کے علاوہ اس دوران جماعت اسلامی اور لبریشن فرنٹ پر پبھی پابندی عائد کی گئی اور ان کے سربراہان کے ساتھ ساتھ سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔

ادھر مسلح اور غیرمسلح ہند مخالف سرگرمیوں کی مبینہ غیرملکی فنڈنگ کے کئی معاملوں کی تفتیش کرنے والی ایجنسی این آئی اے نے بدھ کو تیسرے دن بھی دلی میں میرواعظ عمرفاروق سے پوچھ گچھ جاری رکھی۔ اس کے علاوہ کئی ہفتوں سے سرینگر میں قید لبریشن فرنٹ کے رہنما یاسین ملک کو بھی دلی کی تہاڑ جیل میں منتقل کیا جا چکا ہے جہاں این آئی اے ان سے بھی تفتیش کرے گی۔

کشمیر میں سکیورٹی میں اضافہ

پلوامہ میں فورسز پر ہوئے خود کش حملے کے بعد سے کشمیر میں سیکورٹی کو مزید سخت کر دیا گیا ہے

واضح رہے کہ انڈیا میں پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلے میں بارہمولہ، بانڈی پورہ اور کپوارہ اضلاع پر مشتمل پارلیمانی حلقے کے لیے ووٹ جمعرات کو ڈالے جا رہے ہیں جبکہ علیحدگی پسندوں نے اس روز وادی بھر میں ہڑتال کی اپیل ککر رکھی ہے۔

ان انتخابات میں بنیادی مقابلہ سابق علیحدگی پسند رہنما سجاد لون، نیشنل کانفرنس کے محمد اکبر لون، پی ڈی پی کے راجا اعجاز علی اور عوامی اتحاد پارٹی کے انجنئیر رشید کے درمیان ہو گا۔ الیکشن کے دوران سکیورٹی کے نام پر ہائی وے کو عام ٹریفک کے لیے مسدود کرنے پر سبھی سیاسی جماعتوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp