کاپی سے کرپشن تک سندھ میں تعلیم کا حشر!


یوں تو ایک عرصے سے سندھ میں تعلیم کی صورتحال بدتر چلی آ رہی ہے، مگر پچھلے چند برسوں سے سول سوسائٹی اور میڈیا کے اثر انگیز کردار کے باعث سندھ حکومت کی متعلقہ وزارت بھی متحرک ہونے لگی۔ بند اسکولوں کی عمارتوں سے وڈیروں کے قبضے ختم کرانے کی کوششیں کی گئیں۔ غیر حاضری کے عادی اساتذہ کے خلاف بھی مہم چلائی گئی۔ مئجسٹریٹ کو بھی اسکول وزٹ کے پاور دیے گئے اور بجٹ بڑھانے کے ساتھ ساتھ، تعلیم کا معیار بہتر بنانے کے لیے کئی منصوبے بنائے گئے، مگر تاحال نتیجہ وہی ہے، جو برسوں سے نظر آتا رہا ہے۔

سندھ میں تعلیم کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ انتظامی کوتاہی ہے۔ محکمہ تعلیم کے منتظمین نے استاد، سپروائیزر اور بالا دفاتر کے افسروں تک کرپشن کی ایک ایسی لائین بچھا رکھی ہے، جس کے باعث قانون اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ سب ایک دوسرے کے ہم خیال اور ہم مفاد بنے ہوئے ہیں۔ برسوں سے موجود اس کلچر نے عوامی طور پر یہ تاثر پختہ کر دیا ہے کہ دکھاوے کی خاطر تعلیمی بہتری کے لیے کتنی بھی مہمات کیون نہ چلائی جائیں مگر فائدہ اٹھانے والا طبقا کبھی بھی بہتری آنے نہیں دے گا۔ چنانچہ والدین اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں داخل کرانے کو ترجیح دیتے ہیں اور جو لوگ پرائیویٹ فیس کے متحمل نہیں ہیں، وہ سرکاری اسکولوں میں اپنے بچوں کا وقت ضایع کروانے کے بجائے ان سے محنت مزدوری کروانے پر مجبور ہیں۔

گذشتہ امتحانات کے دوران سندھ میں سر عام کاپی کے مناظر میڈیا پر کثرت سے نظر آئے، کس طرح پرچے وقت سے پہلے آؤٹ ہوئے! کس طرح پھوٹو اسٹیٹ سے واٹس ایپ تک کتنے افراد نے کاپی کلچر کو اپنا روزگار بنا دیا! ؟ ان سوالات نے سندھ کی تعلیمی صورتحال کو مزید تشویشناک بنا دیا ہے۔ کس مفلس والد کا دل چاہے گا کہ وہ بھوکا رہ کر اپنے بچے کو معیاری تعلیم دلوائے اور پھر کوئی ناہل کاپی کرکے اچھے نمبرز کے ساتھ معتبر بن جائے اور یوں رشوت سے نوکری لے کر کسی مستحق کے لیے مخصوص اسامی پر قبضہ کر لے۔ مگر بدقسمتی سے سندھ میں یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے۔ اور اسی کلچر نے ہر جگہ پر اہل اور نا اہل کے درمیان تمیز کو دھندلا کر دیا ہے۔

محکمہ تعلیم سے وابستہ کرپٹ ملازمین نے سندھ کی تعلیم کا بیڑا کس طرح کیا ہے، اس کا اندازہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ دیہی علاقوں میں جابجا اسکول بلڈنگس موجود ہیں مگر وہاں کوئی پڑہانے نہیں آتا۔ اسکولی بلڈنگ کو مقامی وڈیرا چوپال بنا لیتا ہے۔ مگر وہ اسکول کاغذات میں رواں دکھایا جاتا ہے تاکہ بجٹ میں غبن کا راستہ برقرار رہے۔

جب بھی تعلیم کی بہتری کے لیے سول سوسائٹی اور میڈیا والے شور مچاتے ہیں تو تعلیم سے وابستہ با اثر افراد کو کرپشن کے نئے طریقوں کا بہانا مل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر چند سال پہلے سندھ حکومت نے سیف نامی ایک منصوبہ شروع کیا تھا اور اس میں مقامی وڈیرے کو بلڈنگ سے لے کر فرنیچر اور اساتذہ کی تنخواہ تک کا ٹھیکیدار بنایا گیا تھا۔ مگر یہ منصوبہ کرپشن کا ماڈل بننے کے سوا کوئی تعلیمی فائدہ نہیں دے سکا تھا۔ سندھ کے سابق وزیر اعلی اور دیگر اہم شخصیات نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو اس منصوبے کے با اثر عہدوں پر تعینات کروایا تھا، تاکہ زیادہ سے زیادہ کرپشن کی جائے۔

غرض یہ کہ سندھ میں تعلیم کی بہتری کے تمام مطالبات، دعوے اور منصوبے کسی نہ کسی طرح کرپشن کی بھینٹ چڑہ جاتے ہیں۔ ویسے بھی جس معاشرے میں ڈگریوں سے نوکریوں تک اہلیت بھی فروخت کی چیز بن جائے اور جہاں امتحانی پیپر سے لے کر گریڈ تک سب کچھ مارکیٹ کی بولی بن کر رہ جائے، وہاں میرٹ کی بات ایک مذاق سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔

علمی اور سماجی مباحثوں میں تعلیمی تباہی کی ذمہ داری اساتذہ، والدین، انتظامیہ اور معاشرے پر یکساں طور پر ڈال دینا بھی بڑی نا انصافی ہے۔ کیونکہ اس تباہی کی اصل اور واحد وجہ صرف کرپشن ہے۔ جس کی جڑ طرز حکمرانی میں ہی پیوند ہے۔ والدین، معاشرہ اور اساتذہ اگر ذمہ دار ہوتے تو پرائیویٹ اسکولوں کا بھی یہ ہی حال ہوتا مگر وہان کم تنخواہ پر بھی اساتذہ معیاری تعلیم دیتے ہیں۔ کسی بھی پرائیویٹ اسکول انتظامیہ کی اولین ترجیح منافع ہوتا ہے۔ تاہم منافع تب ہی ممکن ہے جب بچوں کی داخلا بڑھے اور داخلہ تب ہی بڑھے گی جب اسکول کا تعلیمی معیار بہتر ہوگا۔ چنانچہ نجی اسکول کی انتظامیہ کسی صورت بھی معیار پر سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔ لہذا یہ تعلیمی معیار ہی ہے جو عوام کو سرکاری اسکولوں کی مفت تعلیم کے بجائے مہنگی تعلیم کی جانب راغب کر رہا ہے۔

یہ خیال بھی یکسر غلط ہے کہ دور افتادہ علاقے جہاں میڈیا اور آگہی کا فقدان ہے، وہاں قانونی عملداری کا نفاذ نہیں ہوتا۔ مگر میرے خیال میں لاقانونیت اور بدانتظامی کی نشاندہی سے زیادہ مردہ قانون کا متحرک ہونا ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہاں پر میں ایک مثال دینے جارہا ہوں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سندھ میں تعلیم کی صورتحال کتنی ابتر ہے۔ میرا گاؤں ملہو بھیل ضلع تھرپارکر کے ماڈل شہر اسلام کوٹ سے محض 8 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

میں گذشتہ ایک سال سے اپنے سات سالہ بچے کو 30 کلو میٹر دور ابن جو تڑ کے تھر فاؤنڈیشن اسکول میں بھیجنے پر مجبور ہوں، جس سے اس کا کھیلنے کودنے کا قیمتی وقت ضایع ہوتا ہے۔ جوکہ صبح شام آوٹ بیک کرتے ہوئے مجھ سے ایک معصوم سوال پوچھتا ہے، جس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ کیونکہ اسکول کی عمارت موجود بھی ہے مگر بچوں کے لیے نہیں ہے۔ سرکاری کاغذات میں تو ٹیچر بھی بچوں کو پڑھا رہا ہے مگر محلے کے بچوں نے اس کی کبھی شکل نہیں دیکھی۔ چنانچہ میرے پاس اپنے چھوٹے بیٹے کے معصوم سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔

”پپا! ہمارے قریب کوئی اسکول کیوں نہیں ہے! “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).