پارلیمانی نظام نہیں، نیت بدلو


ہماری قوم بہت معصوم  ہے۔ یہ کبھی روٹی کپڑا مکان کے نام پر بے وقوف بنی ہے تو کبھی نئے پاکستان کے سبز باغوں نے اسے مسحور کیا ہے اور اب سنا ہے نئے صدارتی نظام کے نام پر قربانی کے لئے تیار ہے۔

کبھی کبھار تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ناٹک کے کھیل میں پہلے سے لکھے ہوئے اسکرپٹ کے مطابق اگلے ایکٹ کے لیے پردہ گرا کر کرسیوں کو مرضی کے مطابق ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دیا جاتا ہے اور نئے منظر کے لئے ساز وسامان کو طے شدہ مقامات پر رکھ کر نیا ناٹک رچا دیا جاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح صدارتی نظام کو بھی شروع کرنے کی تیاریاں زور وشور سے جاری ہیں تو ہم نے فیصلہ کیا کہ اخر یہ صدارتی نظام ہے؟ اور اس کی تاریخ کیا ہے؟ اور اس پر کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں جو ہمارے عزیم دانشور اس نظام کے حامی بن کر اس نظام کے حق میں کود پڑے ہیں۔

دراصل بات یہ ہے کہ یہ وہ معصوم لوگ ہیں جو کبھی ون یونٹ کے فائدہ گنواتے ہیں تو کبھی اسلامک سوشلزم کا چولا پہن لیتے ہیں۔ مطلب کے مطابق کبھی نیم جمہوری اور مطلب پورا ہونے پر جمہوریت کے علمبردار بن کر ابھرتے ہیں۔

سیاستدان پارلیمانی نظام کے حامی ہوتے ہیں جب کہ صدارتی نظام کی حمایت کرنے والوں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ پارلیمانی نظامِ حکومت ناکام ہو چکا ہے۔ مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان لوگوں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہمارا مجموعی مزاج صدارتی نظام کے قریب ہے۔ اس میں صدر چونکہ براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے اس لیے فیصلہ سازی میں اس کے لیے مشکلات نہیں ہوتیں۔ صدر کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اپنی کابینہ کا انتخاب صرف ارکانِ پارلیمنٹ سے کرے بلکہ وہ اپنے طور پر مختلف شعبوں کے ماہرین کو اپنی کابینہ میں شامل کر سکتا ہے۔ یہ ایک پائیدار نظامِ حکومت ہوتا ہے کیونکہ صدر اپنی مخصوص مدت تک اپنی پالیسیوں کو عملی جامہ پہناتا ہے جس سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔

اس نظام میں صدر کے انتظامی سربراہ ہونے کی وجہ سے فیصلوں میں تاخیر نہیں ہوتی۔ ماضی میں صدارتی نظام کے دور میں ہونے والی ترقی کی مثالیں بھی دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس طرزِ حکومت کے نفاذ سے سیاسی انتشار ختم ہو کر ہمیں سیاسی استحکام نصیب ہو گا۔ صدارتی نظام کی حمایت میں کہی جانے والی ان باتوں کے باوجود یہ حقائق اپنی جگہ موجود ہیں کہ یہ ایک غیر لچکدار طرز حکومت ہوتا ہے اور اس میں مکمل جمہوریت کی بجائے کافی حد تک مطلق العنانیت پائی جاتی ہے جس میں جمہوریت صرف ایک کنٹرولڈ شکل میں موجود ہوتی ہے۔

ویسے بھی صدارتی نظام ملک میں فوجی حکمرانوں کے دور میں نافذ رہا۔ اس نظام میں افراد کی سیاسی تر بیت نہیں ہو پاتی۔ میری معمولی سی سوچ یہ لکھنے پر مجبور ہے کہ اس وقت صدارتی یا پارلیمانی نظام کی جنگ میں الجھنے کا وقت نہیں ہے۔

ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ ہمارے سیاست دانوں نے ایک جمہوری آئین کو عوام کی فلاح و بہتری اور جمہوریت کے فروغ کے لیے استعمال کرنے کی بجائے اختیارات کے غلط استعمال کے ذریعے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے، کرپشن کو فروغ دینے، اداروں کو کمزور کرنے اور حکومت پر اپنی گرفت زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کے لئے استعمال کیا اور ہر وہ کوشش کی جس سے ملک کے تمام ادارے ایک ہی شخصیت کے زیر اثر آجائیں۔

ملک میں احتساب کے لیے قائم اداروں کو زیر نگیں کیا گیا اور اہم عہدوں پر اپنے پسندیدہ افراد کا تقرر کیا گیا۔ عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو پس پشت ڈال کر اپنی پسند کے منصوبوں پر کام کیا گیا۔ جس کا نتیجہ صورت حال کی مزید خرابی اور عوام کے ایک طبقے کی موجودہ نظام سے بیزاری کی صورت میں سامنے آیا اور اسی وجہ سے آج ایک دفعہ پھر صدارتی نظام اور ٹیکنو کریٹ حکومت کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پارلیمانی نظام حکومت ایک بہترین طرز حکومت ہے اور ہمیں کسی دوسرے نظام کی کوئی ضرورت نہیں۔

اصل مسئلہ قانون کی حکمرانی اور ملکی مفادات کو ذاتی مفادات پر اولیت دینے کا ہے۔ ہمیں غریب اور امیر اور طاقتور اور کمزور کے لئے قانون کے یکساں اطلاق کی ضرورت ہے۔ ملک میں بہتر نظم و نسق اور کرپشن فری سوسائٹی کا قیام وقت کا اولین تقاضا بن چکا ہے تا کہ عوام کے ٹیکس سے حاصل کردہ پیسے کا استعمال عوامی فلاح و بہبود کے کاموں کے لئے استعمال ہو۔ کمزور آدمی کو انصاف میسر ہو، بے روزگار کو روزگار کے مواقع ملیں۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے۔ جمہوری کلچر کو فروغ دیا جائے۔ اعلیٰ عہدوں پر تقرریاں میرٹ کی بنیاد پر کی جائیں۔ احتساب اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں کو آزادی سے کام کرنے کا موقع دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).