تحریک انصاف کے دانت


آج سے چند سال قبل راقم الحروف کو ایک ورکشاپ میں شرکت کا اتفاق ہوا۔ وہاں وہی امریکی، یورپی ایجنڈا تھا کہ جی ملک کی قرارداد مقاصد سے اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کا اعلان ہٹاؤ، قادیانیوں کو مسلم قرار دو، آئین سے غیر مسلم کے صدر، وزیر اعظم بننے کی ممانعت ہٹاؤ، اسرائیل کو تسلیم کرو، کشمیر کو بھول جاؤ اور اپنے اندرونی مسائل پر توجہ دو، مدرسوں پر پابندی لگاؤ، مذہبی جماعتوں کی سیاست پر پابندی لگاؤ، الغرض لگاؤ۔ لگاؤ۔ لگاؤ۔ اور ہاں۔ توہین رسالتؐ کے قوانین ختم کرو، ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ دو، بس یہ سب کر لو اور دنیا کے اچھے اور سچے شہری بن جاؤ۔

دراصل یہ اوپر مذکور راگ لبرلوں کے لئے ایمان مفصل اور ایمان مجمل کا درجہ رکھتا ہے، ۔ یہ ان کے لئے اصول دین کے ہم معنی ہے، یہ ان کا راگ ہے، ترانہ ہے، یہی ان کا مقصد ہے اور یہی ان کی تمنا ہے، مگر اس ایمان، اس خواہش، اس تمناؤں کی نہ ختم ہونے والی فہرست کا محرک ہے کیا؟

ان خواہشات کی بہت سی وجوہات ہیں، چند وجوہات اندرونی ہیں یعنی نظریاتی اور چند بیرونی۔ اندرونی وجہ یہ ہے کہ لبرل مکمل طور پر یا جزوی طور پر مذہب کے انکاری ہیں، وہ مذہب کے اجتماعی اور انفرادی رخ کو ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ وہ مذہب کی جگہ اپنے نظریات سے پر کرنا چاہتے ہیں، یہ اوپر کی طویل فہرست انہی نظریات سے پیدا ہوئی ہے۔ مگر ان تمام ہی خواہشات کے پیچھے چند خاص نظریات ہیں جن میں آزادی، ترقی، جمہوریت سرفہرست ہیں۔

آزادی ہر نوع کے عقیدے کے بندھن سے اور ہر قسم کی سماجی بندش سے، ترقی مادر پدر آزاد اور ہر انسان کو اور ہر سماجی قدر کو گرا کر۔ اور جمہوریت کے نام پر اوسط اذہان کی بدنظم حکومت۔ یہ سارے راگ، یہ منتر پچھلی 2، 3 صدیوں میں مغرب کے روحانی بحران سے پیدا ہوئے اور ساری دنیا پر مغرب کی بندوقوں اور پروفیسروں کے ذریعے پھیلا دیے گئے۔

ہمارے لبرل بیچارے اسی مغربی وائرس کے شکار لوگ ہیں۔ مگر یہ تو صرف اندرونی وجہ کا بیان ہے، ان کی ان خواہشوں کی اور بھی ایک وجہ ہے اور وہ وجہ سب سے اہم ہے۔ وہ یہ کہ لبرلوں کو اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر مغربی ممالک سے پیسے اور فوائد ملتے ہیں۔ یہ این جی اوز مغرب سے اسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر بھیک پاتی ہیں۔ یہ ٹی وی چینل اسی ایجنڈے پر پلتے ہیں۔ مغربی ممالک کے سفارت خانے اور قونصل خانے لبرلوں کو بلا کر پروگرامز اور ورکشاپ کراتے ہیں۔ اپنے ملکوں کی سیر کرواتے ہیں، اسناد اور تمغوں سے نوازتے ہیں۔ الغرض ان منتروں کی گردان صرف اور صرف کچھ نظریاتی وجوہات پر نہیں ہے بلکہ مفادات کا چکر ہے ورنہ یوں ہی یہ فریحہ عزیز اور ماروی سرمد جی اتنی سماجی خدمت نہیں کرتی رہتیں۔ ان کو کروڑوں روپے اور باہر کی مفت کی سیر مل جاتی ہے۔

اب آئیے مدعے کی بات پر۔ کہا جاتا ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ ہمارے وطن کی نئی نئی، بلکہ اب تو اتنی نئی بھی نہیں ہے۔ حکمران جماعت تحریک انصاف بھی ہاتھی کی طرح ہے۔ اس کے کھانے کے دانت اور ہیں اور دکھانے کے اور۔ یہ جماعت جب سے اقتدار میں آئی ہے تب سے دنیا حیران ہے کیا واقعی یہ حکومت اتنی نا اہل ہے؟ کیا یہ تباہی، یہ بربادی سب محض نوسیکھے پن کا نتیجہ ہے؟ مگر اب واضح ہو گیا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے، دراصل جو کچھ بھی تحریک انصاف کر رہی ہے وہ بے حد سوچا سمجھا ہے۔ یہ اسٹاک مارکیٹ یوں ہی نہیں گر گئی، یہ ہزاروں لوگ یوں ہی انسداد تجاوزت مہم کے نام پر بے گھر نہیں کر دیے گئے۔

معاملہ بڑا صاف ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے 2011 ء سے اپنا قبلہ واشنگٹن سے بیجنگ کی طرف کر لیا ہے۔ وجہ یہ تھی کہ زرداری صاحب کی حکومت نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے ڈرامے کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کو چوڑے میں مروا دیا تھا۔ تب سے اسٹیبلشمنٹ نے سول حکومتوں کو رفتہ رفتہ کسا اور چین سے ڈاک خانہ ملایا۔ اب اس کام میں ابتدائی طور پر نواز شریف صاحب حکومت میں آنے کے بعد صحیح چلے مگر پھر وہ بھی امریکا بہادر اور بھارت کے زور پر اسٹیبلشمنٹ کو آنکھیں دکھانے لگے۔ نتیجہ کیا ہوا، سب جانتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے اب عمران خان اور تحریک انصاف کو چنا، ان کے پاس اس چناؤ کی چند خاص وجوہات ہیں مثلاً

* عمران خان صاحب کے یورپ میں بہت مضبوط تعلقات ہیں اور برطانیہ کے شاہی خاندان سے لے کر یہودی سرمایہ داروں تک سب ان کی جیب میں ہیں۔

* خان صاحب کی حکومت پر اہل یورپ مہربان ہوں گے اور صرف چین کا یار بن کرکسی نوع کا شمالی کوریا بن جانے سے پاکستان بچ جائے گا۔

* خان صاحب کو حکومت مینڈیٹ چوری کر کے دیا جائے گا اس لئے وہ کمزور حکمران ہوں گے اور اسٹیبلشمنٹ کے آگے بھی چوں نہ کریں گے۔

مگر ظاہر ہے کہ خان صاحب نے سہرا باندھنے سے قبل اپنی شرائط بھی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے رکھی ہی ہوں گی اور اب جب کھیل کھل کر سامنے آ رہا ہے تو بات صاف ہو رہی ہے کہ وہ شرائط کیا تھیں۔

خان صاحب کی ان شرائط کو سمجھنے سے قبل یہ بات جاننے کی ضرورت ہے کہ خان صاحب صہیونی یعنی Zionist ہیں۔ ہمارے پاس اپنے دعوے کی دلیل ہے۔ (Zionist) صہیونی ہونے کے لئے صرف اس چیز کی ضرورت ہے کہ آپ کنعان (ارض فلسطین) پر یہود کا حق مانتے ہیں۔ خان صاحب صہیونی ہیں اور اپنے اسرائیل سے متعلق نظریات کو برملا یورپ میں ظاہر کر چکے ہیں۔ پھر خان صاحب جب بار بار ریاست مدینہ کا ذکر کرتے ہیں تو بھی اندر سے سیکولر لبرل ماڈل نکل نکل کر سامنے آ رہا ہوتا ہے۔ یعنی خان صاحب کے عہد میں دراصل پاکستان ایک سیکولر، لبرل ریاست بنے گا جو اسرائیل کو بھی تسلیم کر لے گا۔ خان صاحب نے اپنا یہ وژن اسٹیبلشمنٹ کے سامنے رکھا اور اسٹیبلشمنٹ بھی اس کو مان گئی، اس لئے کہ چین سے دوستی مغرب کو کھل رہی ہے تو اس کو منانے کے لئے کچھ تو کرنا پڑے گا ہی۔

بہرحال، اب ہو یہی رہا ہے مگر عوام کے شدید ردعمل سے بچنے کے لئے ان کو سخت مہنگائی اور بے روزگاری سے الجھا دیا گیا ہے۔ مزاحم مذہبی قیادت کو یا تو اگلی دنیا پہنچا دیا گیا یا جیل۔ اور اب رفتہ رفتہ جو ہو گا اس کا خاکہ پیش خدمت ہے۔ قارئین غور سے پڑھ لیں اور اس مضمون کی تاریخ لکھ لیں تا کہ بوقت ضرورت سند رہے ہمیں گالی دینے میں آسانی ہو۔

* پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے گا۔

* قادیانیوں کو دوبارہ مسلم قرار دیا جائے گا۔

* ناموس رسالت کے قوانین ختم کر دیے جائیں گے۔

* اسلامی دفعات آئین سے ہٹا دی جائیں گی۔

* غیر مسلموں کے صدر، وزیر اعظم وغیرہ بننے پر پابندی بھی ختم ہو گی۔

* ہم جنس پرستوں کو قانونی تحفظ حاصل ہو جائے گا۔

* مدارس کا نصاب تبدیل کیا جائے گا اور تعلیمی نظام سے قرآن حدیث کو ہٹا دیا جائے گا۔

* مذہبی سیاسی جماعتوں کو بالکل ڈمی بنا دیا جائے گا۔

یہ سب کچھ اور بہت کچھ ہو گا، وہی سب کچھ جو مشرف بھی کرنا چاہتا تھا، مگر سوال تو یہ ہے کہ ہمارے ملک کے مسلمان کہاں سو رہے ہیں؟ وہ کب تحریک انصاف کے اصل دانتوں کو پہچانیں گے؟ وہ کب لبرلوں کے ان عزائم کی مزاحمت پیدا کریں گے؟ آخر کب؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).