پاکستان ریلوے اور شیخ رشید کی ٹیوشن


دستور بن چلا ہے کہ ایک جھوٹ کو اتنی بار بولو کہ سچ کا گماں ہونے لگے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں تو اخلاق اور سچ دور کے سپنے لگتے ہیں۔ آپ نہیں مانتے۔ چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں جو تواتر سے بیان کی جاتی ہیں۔ لیکن ان کا کوئی سر پیر نہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ تین سو ارب روپے کی کرپشن کا ذکر پہلے بار کہاں ہوا، لیکن اپنے فواد چوہدری صاحب سے لے کر ہر دوسرا وزیر ن لیگ کی تین سو ارب روپے کی دہائیاں دیتا ہے اور الیکشن سے پہلے تو دعوے بھی کرتے تھے کہ اقتدار میں آتے ہی تین سو ارب روپے واپس لائیں گے۔

اب یہ تین سو ارب روپے کا فگر اتنی دفعہ بولا گیا ہے کہ سچ کا گمان ہونے لگے، لیکن کسی قانونی کاغذ، کسی مقدمے، کسی فائل میں آج تک تین سو ارب روپے کی کرپشن کا ذکر نہیں ہوا۔ فواد چوہدری صاحب تو ایک روز فرطِ جذبات میں شہباز شریف کی پندرہ سو ارب روپے کی کرپشن کا دعویٰ کر بیٹھے اور کچھ روز اس کی تکرار بھی کی۔ بھلا ہو کسی نامعلوم ناصح کا کہ فواد چوہدری صاحب نے رجوع کر لیا۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے دعووں کے مطابق میڈیا کے ہردلعزیز شیخ رشید صاحب کی ریلوے خسارے سے باہر آ چکی ہے۔ پی آئی اے کا خسارہ آدھا رہ چکا ہے۔ باقی دعوے تو شاید اس قابل بھی نہیں کہ ان کا ذکر ان سطور میں کر کے قارئین کا وقت برباد کیا جائے۔ اپنے شیخ صاحب کی ریلوے کو ہی دیکھ لیجیے۔ غلام احمد بلور کے دور کی تباہ شدہ ریلوے کو خواجہ سعد رفیق کے دور میں بحال کیا گیا۔ ٹرینیں وقت پر چلنے لگیں، مال گاڑیاں چلنے لگیں اور ریلوے کا خسارہ کم ہونے لگا۔

خواجہ صاحب کی کارکردگی پر ہم جیسے ن لیگ کے ناقدین بھی تعریف کیے بنا نہیں رہ سکے۔ پھر ایک سہانی صبح خواجہ صاحب رائل پام کلب کے زکوٹا جنوں سے پنگا لے بیٹھے۔ اب سب جانتے ہیں کہ رائل پام کلب کی لیز اشرف جاوید قاضی کے دور میں ’محکمہ زراعت‘ کی زیر نگرانی سرانجام پائی تھی۔ خواجہ صاحب اپنی جسارت پر توبہ کر لیتے تو بھی ٹھیک تھا، لیکن خواجہ صاحب تو ڈٹ گئے۔ پھر وہی ہوا جو ایسے منچلوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ جسٹس ثاقب نثار، جنہیں تاریخ میں پاکستان کے بدترین چیف جسٹس کے طور پر یاد رکھا جائے گا، نے بھری عدالت میں خواجہ صاحب کی تضحیک کرنی شروع کر دی اور جہاں وہ اپنے زعم میں پانی، آثار قدیمہ، توانائی، ماحولیات، تعلیم اور صحت وغیرہ جیسے معاملات کے ماہر تھے، وہیں انہوں نے اپنے آپ کو ریلوے کا ماہر بھی تصور کر لیا تو ریلوے کے معاملات میں ٹانگ اڑانے لگے۔ تو دوستو پھر ریلوے کی گاڑی بھی پٹڑی پر چڑھتے چڑھتے اتر گئی اور ایک بار پھر اپنے شیخ رشید احمد کی جھولی میں آ گری۔

شیخ صاحب نے جب وزارت کا چارج سنبھالا تو پہلی ہی بریفنگ انہیں ہضم نہیں ہوئی۔ افسران کو سختی سے تاکید کی گئی کہ ان کے سامنے خواجہ سعد کی تعریف نہ کی جائے۔ اب میڈیا کے سامنے آنیاں جانیاں دکھانی بھی مقصود تھیں، تو شیخ صاحب نے ایک کے بعد ایک نئی ٹرین کا افتتاح کرنا شروع کر دیا۔ شنید ہے کہ آٹھ ماہ میں دس سے زیادہ نئی ٹرینیں چلائی گئیں اور مطلوبہ مقاصد حاصل کر لئے گئے۔ مطلوبہ مقاصد سے مراد ذاتی تشہیر ہے۔

رہی پاکستان ریلوے تو اس کے خسارے میں اضافہ ہی اضافہ ہوا۔ ایک وزارتی اجلاس کے عینی شاہد کے مطابق خانیوال سے ٹرین کے اجرا کی بریفنگ میں شیخ صاحب کو بتایا گیا کہ یہ خسارے کا روٹ ہے، روٹ طویل ہونے کے سبب ٹرین کا سفر چھ گھنٹے اور بس کا سفر قریب تین گھنٹے کا ہے۔ مسافر بس سے سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن شیخ صاحب بضد رہے اور ٹرین کا افتتاح کر کے اخبارات میں تصویر چھپوانے میں کامیاب رہے۔

دنیا میں ریل کا نظام مال گاڑیوں کی بدولت چلتا ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے کراچی سے قراقرم تک، کنٹینرز کی ترسیل زیادہ تر سڑک کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اس عرصے میں ایک بھی نئی مال گاڑی نہیں چلائی گئی، لیکن مسافر ٹرینوں کی بھرمار کر دی گئی۔ یہاں تک بھی ٹھیک تھا، اگر ریل کا نظام بروقت چل رہا ہوتا۔ یہاں ایک نئی ٹرین چلتی ہے تو پہلے سے موجود ٹرینوں کے اوقاتِ کار متاثر ہوتے ہیں۔

اب صورتحال یہ ہے کہ ریلوے کے خسارے میں اضافہ ہو چکا ہے۔ ٹرینیں ایک بار پھر لیٹ ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ کئی ٹرینیں تو اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے لیٹ ہونے لگی ہیں، اور مسافر پہلے کی طرح ریلوے اسٹیشنز پر خوار ہوتے نظر آتے ہیں۔ چند ماہ پہلے ایک حادثے کے بعد ٹرینیں دو دو دن لیٹ ہونے لگیں۔ لیکن سوشل میڈیا پر ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے کہ ریلوے کا خسارہ کم کر دیا گیا ہے۔ اب اگر ایسی گیڈر سنگھی شیخ صاحب کے پاس ہے جس سے آٹھ ماہ میں ریلوے جیسے ادارے کا خسارہ ختم کیا جا سکتا ہے تو خاکسار کی وزیراعظم سے درخواست ہے کہ سٹیل مل، پی آئی اے، پی ٹی وی اور ایسے تمام سفید ہاتھیوں کی ذمہ داری چھ چھ مہینے کے لئے شیخ صاحب کو دے دیں تاکہ یہ ادارے بھی خسارے سے باہر آ سکیں۔ بلکہ انہی اداروں پر کیا موقوف، شیخ صاحب کو وزیرخزانہ کا اضافی چارج بھی دے دیں، تاکہ پاکستان کا تجارتی خسارہ بھی یکمشت ختم کیا جا سکے۔

دوسری طرف اس عرصے میں ریل گاڑیوں کے دو بڑے حادثے ہو چکے ہیں۔ لیکن خان صاحب جو اپوزیشن کے دنوں میں وزیر ریلوے کو تمام حادثوں کا ذمہ دار سمجھتے تھے، اپنے وزیر سے استعفیٰ لینے سے قاصر رہے، استعفیٰ تو دور کی بات ان حادثوں کے بارے میں روایتی بیان بھی نہیں جاری کیا گیا۔ خاکسار کی صرف اتنی سی گزارش ہے کہ ملک تو آپ سے چلنا مشکل ہے، صرف اتنی مہربانی کر دیں کہ آئندہ اپنی تقریروں میں قرآن و حدیث کے حوالے اور مغربی ممالک کی اخلاقیات کی مثالیں دینا بند کر دیں۔

بات دروغ گوئی سے شروع ہو کر کہیں اور جا پہنچی۔ تحریک انصاف کی حکومت کو اپوزیشن سے زیادہ خطرہ ان اتائی اور خدائی فوجداروں سے ہے، جو اپنے زعم میں حکومت کا بھلا کر رہے ہیں، لیکن مسلسل جھوٹ اور پست اخلاقیات سے اپنی جماعت کو رسوا کرنے میں مصروف ہیں۔ جہاں تک بات شیخ رشید صاحب کی راست کلامی کی ہے تو یقین مانیں گوئبلز آج زندہ ہوتا تو یقیناً شیخ صاحب سے ٹیوشن پڑھتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).