سینٹ تھامس: حیدرآباد کا قدیم ترین گرجا گھر


حیدرآباد سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ جہاں یہ شہر ایک قدیم تاریخ کا حامل ہے، وہاں اس شہر میں لاتعداد قدیم مقامات بھی ہیں جو اس کی پہچان بنے ہوئے ہیں۔ حیدرآباد کا نام زبان پر آتے ہیں، ذہن تاریخ کے ان جھروکوں میں جھانکنے لگتا ہے، جب اس شہر پر کئی قہر نازل ہوئے، توبوں گھن گرج اور بندوقوں کی نالیوں سے نکلی گولیوں نے شہر کی گلیوں کو اجاڑ دیا تھا۔

مگر ان تمام تر عوامل کے باوجود حیدرآباد مذہبی رواداری کا بھی ثبوت دیتا ہے۔ یہاں مسلمان، ہندو اور سکھوں کے علاوہ عیسائی، خواجہ اور بوہری بھی آباد ہیں اور اس شہر کا ہر کونہ اپنی ایک خاص پہچان رکھتا ہے۔ حیدرآباد میں جامع مسجد، رانی باغ، اور تقسیم سے قبل کی عمارات بھی موجود ہیں۔

میں جب بھی اپنے شہر کی گلی کوچوں میں نکلتی ہوں تو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ میں نے کچھ نہ کچھ نیا ضرور دیکھا ہے۔ کوئی ایسی عمارت، کوئی ایسا گھر جو کئی بار میری نظروں سے اوجھل رہا ہو، وہ نظر آ ہی جاتا ہے۔ اس بار میری نظریں حیدرآباد کے ڈفینس کے علاقے میں قائم سینٹ تھامس رے نامی ایک گرجا گھر پر گڑ گئیں اس کی بنیاد H۔ B۔ V Frere ESQ نے 14 جنوری 1856 کو رکھی جو اس وقت سندھ کے کمشنر تھے اور انہوں نے یہ گرجا گھر یہاں آباد عیسائی آبادی کو وقف کیا تھا۔

سینٹ تھامس ممبئی سے سندھ آئے تھے۔ گرجا گھر کی عمارت 26 فروری 1860 ع کو تعمیر ہوئی جو آج تک موجود ہے۔ میں ہر اتوار یہاں سے گزرتی اور دیکھتی، ایک دن میں نے گرجا گھر کے پروگرام میں شرکت کی اور وہاں کے نگہبان سردار چاچا سے ملاقات ہوئی۔ جن سے اس چرچ کی حوالے سے بات چیت بھی ہوئی۔ چاچا سردار 15 مئی 1981 سے یہاں موجود ہیں اور اس فرض کو نبھاتے چلے آ رہے ہیں۔ چاچا نے اپنی پوری زندگی اس چرچ کو وقف کردی۔ چاچا کی دو بیٹیاں ہیں۔ چاچا چرچ کے عقب میں ہی رہتے ہیں اور آج تک خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس چرچ میں روز دعا ہوتی ہے اور یہ چرچ صبح 9 : 30 سے شام 5 : 00 تک کھلا ہوتا ہے اگر کوئی کسی بھی وقت آئے تب بھی اسے عبادت کا موقع دیا جاتا ہے۔ چاچا نے یہ بھی بتایا کہ یہاں بہت سے لوگ دعا کے لئے آتے ہیں اور شفاء پاتے ہیں۔ بقول ان کے یہاں نابیں لوگوں نے آنکھیں پائیں۔ بیماروں نے شفاء پائی اور پرساں حال نے خوشی پائی جو روتے ہوئے آئے وہ ہنستے ہوئے گئے جو معذور آئے وہ اپنے پاؤں پا شفاء حاصل کر کے گئے۔

ان کا کہنا ہے کہ دعا کا حق ہر انسان کو ہے، وہ بھی دعا کرتے ہیں اور ان کو بھی خداوند نے نوازا ہے اور ان کی دعا میں بھی اثر ہے۔

میرے لیے اس گرجا گھر کو دیکھنا ایک نیا تجربا تھا، اس لیے مجھے ہر بات جاننے اور ہر چیز دیکھنے کا کافی تجسس سا تھا۔ گرجا گھر کی خاموشی ان لمحات میں جیسے میرے وجود سے لپٹ گئی ہو۔ گرجا کے احاطے میں چچا سردار کے ساتھ چلتے ہوئے ہمارے قدموں کی آہٹ صاف صاف سنائی دے رہی تھی۔

انہوں ہنستے مسکراتے بہت اچھے طریقے سے چرچ کی ہر چیز دکھائی اور مجھے سمجھایا اور مقدس کتاب زبور کے چند اقتباس بھی بتاتے گئے۔ اور یہ بھی پیغام دیا کہ کوئی بھی مذہب نفرت نہیں سکھاتا ہر مذہب محبت کرنا سکھاتا ہے اس لئے محبت بانٹو اور محبت کرو۔

یہاں پر صفائی ستھرائی کا کام دیکھنے لائق ہے۔ جہاں ہر حساب سے کافی خیال رکھا جاتا ہے۔ چرچ میں بینچوں کے علاوہ ایک اسٹیج نما حصہ بھی ہے، جہاں چار کرسیاں رکھی گئی ہیں اور اس کے علاوہ ہر کرسی کی ٹیبل کے آگے انجیل شریف موجود ہے ایک ممبر نما جگہ بھی ہے، جہاں مائیک رکھا ہے اور اس کے علاوہ سامنے والی کرسی پر انجیل شریف، گیتا اور زبور 3 دیگر کتابیں بھی موجود تھیں جس میں سے لوگ گیتا یا زبور وغیرہ دیکھ کر پڑھتے ہیں۔

ٹھیک سامنے والی دیوار پر کراس کا نشان بنا ہوا ہے۔ اس چرچ میں کوئی مجسمہ اور کئی تسبیح نما چیز نہیں ہے۔ یہاں ہر چیز نہایت ہی عمدہ طریقے سے ترتیب رکھی گئی۔ چرچ میں لاتعدا د پنکھے اور بہترین قسم کی جھومر بھی نصب کیے گئے ہیں جو کہ گرجا گھر کی خوبصورتی میں چار چاند لگائے رہتے ہیں۔

میں نے اس چرچ کو اچھی طرح دیکھ کر ان سے سوال کیا۔ کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ میں کیا فرق ہے؟

انہوں نے اس کا جواب بھی کلام پاک کی ایک آیت سے دیا، جس کا مفہوم تھا کہ تو ہاتھ سے بنائے ہوئے مجسمات کی پرستش نہ کر اور کہا جس طرح ہر مذہب کے قواعد اور قوانین ہیں ٹھیک ایسے ہی عیسائیت میں بھی ہیں۔ ان کے بھی دو فرقے ہوتے ہیں اور یہ چرچ St Thomasپروٹیسٹنٹ فرقے کا ہے یہ لوگ کیتھولک چرچ میں عبادت نہیں کرتے اور ان کے عقائد کیتھولک والوں سے مختلف ہیں یہ مجسمات اور تصاویر کو نہیں مانتے یہ چرچ جب 1860 میں تعمیر ہو کر مکمل ہوا تھا، تب اس کی چھت لکڑیوں کی تھی، ان لکڑیوں کی وجہ سے کچرا اور بارش کا پانی چرچ میں آتا تھا اور عبادت کرنے والوں کو تکیلف ہوتی تھی۔ کچھ عرصے بعد اس کے چھت کو سیمنٹ سے مرمت کروائی گئی اور باقی ماندہ گرجا گھر بھی دوبارہ تعمیر ہوا۔

سینٹ تھامس چرچ کو Cathedral Church of the Diocese of Hyderabad کا لقب حیدرآباد کے پہلے Bishopبشیر جیوان نے 10 اپریل 1981 کو دیا۔ اس چرچ میں ایک Diocese Missionary کا آفیس بھی موجود ہے اور حیدرآباد کے سبھی Bishopاور Diocese میں کام کرنے والے یہیں بیٹھتے ہیں یہ چرچ 1960 ع میں ایک تربیتی ادارہ بھی رہا ہے، اس چرچ کی بناوٹ بہت ہی خوبصورت ہے اور چرچ کے باہر خوبصورت خوشبو نما پودے بھی موجود ہیں۔ اس چرچ کو پتھر والا چرچ بھی کہا جاتا ہے۔

ویسے تو حیدرآباد میں کئی چرچ ہیں لیکن پروٹیسٹنٹ فرقے میں پتھر والا چرچ یعنی سینٹ تھامس اور کیتھولک فرقے میں لال چرچ یعنی Saint Maryچرچ مشہور ہیں۔ اس چرچ میں نکاح وغیرہ بھی پڑہائے جاتے ہیں۔ باقی چرچ کا کوئی ہدیہ نہیں ہوتا۔ پادری صاحب بس نکاح کی فیس لیتے ہیں، اگر کوئی خوشی سے دینا چاہے تو ورنہ وہ بھی نہیں یہ چرچ جتنا اندر سے خوبصورت ہے اتنا ہی باہر سے بھی خوبصورت اور شاندار ہے۔ اس چرچ کی رونق ارد گرد کے پودوں اور پر امن ماحول نے بھی رکھی ہے۔

اس کے علاوہ یہاں ایک قدیم برگد کا درخت بھی موجود ہے جو آج بھی اسی ہی حالت میں قائم ہے یہ برگد کا درخت اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ ٹھیک اس درخت کے پاس ایک خوبصوت باغ ہے، جہاں گلاب، چنبیلی اور بہت سارے حسین پھول کھلے ہوئے ہیں۔ باغیچے سے آگے اندر پوری Dioceseآفیس ہے جس میں لوگ بیٹھتے ہیں، اسے برابر میں ایک لائبریری اور Meeting Roomبھی ہے۔ دوسری جانب گاڑیوں کی پارکنگ اور کچھ پودے وغیرہ موجود ہیں۔

یہاں وقت کے ساتھ ساتھBishop بدلتے رہتے ہیں، سب سے پہلے Bishopبشیر جون تھے جنہوں نے 1981 ع سے لے کر 1997 ع تک خدمت سر انجام دی۔ اس کے بعد 2000 ع تک Bishop تک رہے ان کے جانے کے بعد Bishopرفیق مسیح آئے اور انہوں نے 2011 ع تک خدمت سر انجام دی۔ ان کے بعد Bishop Kaleem Johnابھی تک اس عہدے پر فائز ہیں۔ اس کے علاوہ Dioceseکے دو اسکول بھی حیدرآباد میں چل رہے رہیں جو کرسچن، مسلمان اور ہندو بچوں کو کم پیسوں میں تعلیم دیتے ہیں۔

میں سمجھتی ہوں کہ ان اسکولوں میں ہندوؤں اور عیسائی بچوں سے زیادہ تر مسلم بچے ہیں 2010 ع سے لے کر 2014 ع تک میں بھی اس اسکول کا حصہ رہی ہوں، اس اسکول میں ہندو بچوں کو گیتا، مسلم بچوں کو اسلامیات اور عیسائی بچوں کو بائبل پڑھائی جاتی ہے۔ اس اسکول میں کوئی تعصب اور کوئی مذہبی تفریق نہیں ہے اور ہر مذہب ہمیں انسانیت کا سبق دیتا ہے کیونکہ سب سے پہلے انسانیت ہے۔

حیدرآباد میں اس قسم کے گرجا گھر اس بات کا مظہر ہیں کہ ہمارے ملک میں لوگوں کو اپنے اپنے مذاہب سے جڑے رہنے کی آزادی ہے اور وہ بنا کسی تفریق کے ان ننھے ذہنوں کی آبیاری کر رہے ہیں جو کہ آنے والوں وقتوں میں ہمارا مستقبل ہیں۔

میرے لیے کسی گرجا گھر جانے کا یہ پہلا تجربا تھا، مگر مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ اگر انسان کے اندر اچھائی پائی جاتی ہو تو وہ خواہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو مگر انسانیت کی خدمت کرنا ہی اس کی اولیں ترجیح ہوتی ہے

صدف شیخ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صدف شیخ

صدف شیخ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہیں سندھی اور اردو رسائل و اخبارات میں کالمز لکھنا پسند ہے۔

sadaf-shaikh has 11 posts and counting.See all posts by sadaf-shaikh