لمز کے طلبا اور صنفی تعصب


لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز ایک بار پھر نیوز فیڈ میں آ گئی۔ لمز کے طلبا میں جنسی ہراسانی کے مسئلہ پر خاصی حساسیت پائی جاتی ہے۔ وہ اس کے بارے میں بات کرنے سے نہیں گھبراتے۔ اسے ادارے کی عزت کا مسئلہ بنا کر قالین کے نیچے نہیں دباتے۔ انگزیزی اخبارات میں یونیورسٹی کے مسائل پر اداریے لکھے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ بنتے ہیں۔ اور اس سارے عمل کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسئلہ انتظامیہ کے ریڈار پر آ جاتا ہے اور یوں حل بھی ہو جاتا ہے۔

گزشتہ سال یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے ایک استاد کو اپنی ریسرچ اسٹنٹ کی شکایت پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے جرم میں نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے۔

لمز یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی کا مسئلہ ایک بار پھر سامنے آیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یونیورسٹی کے حالیہ اور سابق طلبا نے ”ڈینک پنا“ کے نام سے ایک وٹس ایپ گروپ بنا رکھا تھا جس میں جنسی تعصب سے بھرپور مواد شئیر ہوتا تھا۔ یہ گروپ زیادہ تر لڑکوں پر مشتمل تھا۔ کچھ عرصہ پہلے چند طالبات کو اس گروپ تک رسائی حاصل ہوئی جنھوں نے گروپ کے سکرین شاٹ امیج لے کر سماجی رابطوں کے ویب سائٹ پر ڈال دیے۔ اس سے ایک شدید ردِعمل سامنے آیا۔ لڑکیوں نے سٹوڈنٹ افیرز کے دفتر کے باہر دھرنا دیا اور اس کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ نتیجہ اس عمل کا یہ نکلا کہ مذکورہ وٹس ایپ گروپ کو بند کرنا پڑا۔

اس ساری صورتحال نے چند سوالوں کو جنم دیا ہے۔ سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ کیا صنفی تعصب محض لمز یونیورسٹی کا مسئلہ ہے؟ کیا یہ مسئلہ لمز یونیورسٹی تک ہی محدود ہے یا یہ ہر اس یونیورسٹی یا ادارے کا مسئلہ ہے جہاں مرد و زن ایک ساتھ کام کرتے ہیں؟ اگر یہ مسئلہ باقی یونیورسٹیز میں بھی عام ہے تو اس پر بات کیوں نہیں کی جاتی؟ کیا اس مسئلے پر بات کرنا مشکل ہے؟

کسی مسئلے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس پر بات کرنا کتنا مشکل یا آسان ہے۔ روز مرہ کے تجربے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کا مسئلہ اس قدر سنگین ہے کہ اس کے بارے میں بات کرنا بھی نا ممکنات میں سے ہے۔ لمز میں ایسا کیا ہے کہ وہاں اس مسئلے پر بات ہوتی ہے۔ انگریزی میڈیا میں کالم اور اداریے لکھے جاتے ہیں۔ ٹویٹر اور فیس بک پر ہیش ٹیگ بنتے ہیں اور مسئلہ یونیورسٹی کی چار دیواری سے نکل کر پبلک ڈومین میں آجاتا ہے۔

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز پاکستان کے باقی تعلیمی اداروں جیسی نہیں ہے۔ یہاں پاکستان کی مراعات یافتہ شہری اپر مڈل کلاس کے بچے پڑھنے آتٕے ہیں۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے کہ صنفی امتیاز سے جڑے ایک وٹس ایپ گروپ پر اتنا شور ہوا کہ اس گروپ کو ختم کرنا پڑا۔ یہ پاکستان کی سرکاری یونیورسٹی نہیں ہے کہ جہاں سارا دن جنسی تعصب پر مبنی جملے ہر آتی جاتی لڑکی کو سننا پڑتے ہیں۔ اور اس کے پاس ان جملوں کو سن کر منہ دوسری طرف کر لینے کے علاوہ کوئی رستہ نہیں ہوتا۔ اس ادارے میں وہ لڑکی نہیں پڑھتی جسے یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لیے اپنے گھر والوں کی منتیں کرنا پڑیں۔ اور اجازت بھی اس شرط پہ ملے کہ وہ خاندان کی عزت پر کوئی حرف نہیں آنے دے گی۔

لمز کے طلبا صنفی تعصب کے خلاف آواز اٹھانے پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ لیکن کیا پاکستان کے چھوٹے شہروں میں واقعہ تعلیمی اداروں میں آئے روز صنفی تعصب کا نشانہ بننے والی طالبات ہماری ہمدردی کی مستحق بھی نہیں ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).