بلیک ہول کی پہلی تصویر جاری کر دی گئی


ماہرین فلکیات نے بلیک ہول کی پہلی مرتبہ تصویر لی ہے جو ایک دور دراز کہکشاں میں واقع ہے۔

یہ ایک بہت بڑا بلیک ہول ہے جس کی لمبائی چار سو ارب کلومیٹر ہے۔

یہ زمین کے مجموعی حجم سے تیس لاکھ گنا بڑا ہے اور سائنسدان اسے ایک مونسٹر یا دیو قرار دے رہے ہیں۔

یہ بلیک ہول دنیا سے تقریباً پچاس کروڑ کھرب کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے اور اس کی تصویر دنیا کے مختلف حصوں میں نصب آٹھ دوربینوں کے ذریعے لی گئی ہے۔

اس کی تفصیل بدھ کو ایسٹرو فیزکل لیٹر میں شائع کی گئی ہیں۔

نیدرلینڈ یونیورسٹی رادباونڈ کے پروفیسر ہاینو فیلک جنھوں نے یہ تجربہ کرنے کی تجویز دی تھی بی بی سی کو بتایا کہ یہ کہکشاں جس کی تصویر حاصل کی گئی ہے اسے ایم ستاسی کہا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ ہمارے پورے نظام شمسی سے بڑا ہے۔

اس کا حجم سورج سے چھ اعشاریہ پانچ ارب گنا بڑا ہے اور سائنسدانوں کے خیال میں اب تک دریافت ہونے والے بلیک ہولز میں سب سے زیادہ وزنی ہے۔

South Pole Telescope

Jason Gallicchio

یہ روشنی ہماری کہکشاں میں موجود تمام ستاروں سے زیادہ تابناک ہے اور اسی وجہ سے ہم اسے زمین سے دیکھنے کے قابل ہوئے ہیں۔

بلیک ہول کے ارد گرد موجود دائرہ وہاں پر اس لیے موجود ہے کیونکہ وہ وہ بلیک ہول میں داخلے کا مرکز ہے اور وہاں پر سے گزرنے والی کوئی بھی شے بلیک ہول کی کشش کو برداشت نہیں کر سکتی اور اس میں چلی جاتی ہے۔

اس مقام پر فزکس کے تمام تر اصول ناکام ہو جاتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ یہ ایک ’دیو‘ ہے اور کائنات میں پائے جانے والے تمام بلیک ہولز میں ہیوی ویٹ بلیک ہول ہے۔

اکثر کہکشاؤں کے مرکز میں ایک بلیک ہول ہوتا ہے، تاہم مختلف بلیک ہولز کی خصوصیات مختلف ہوتی ہیں۔

ان میں سے کچھ تو قریبی گیس، خلائی دھول اور ستاروں کو ہڑپ کرتے ہیں، جب کہ بعض اتنی بڑی مقدار میں توانائی خارج کرتے ہیں کہ آس پاس ستاروں کی تشکیل کا عمل ہی کھٹائی میں پڑ جاتا ہے۔

پروفیسر فالکے نے جیسے بتایا تھا، اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بلیک ہول کو ارد گرد ‘رنگ آف فائر’ یعنی نارنجی رنگ کا دائرہ ہے۔ اور اس دائرے کو اتنے واضح طور پر دیکھنا اس لیے ممکن ہے کیونکہ جو گیس بلیک ہول میں جاتی ہے، اس سے پیدا ہونے والی روشنی دائرے کو مزید نمایاں کرتی ہے۔

یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر ڈاکٹر زیری یونسی جو اس منصوبے کا حصہ بھی تھے ، کہتے ہیں کہ ‘بلیک ہول ویسے تو کافی سادے ہوتے ہیں لیکن ان کی وجہ سے پیدا ہونے والے سوالات انتہائی پیچیدہ نوعیت کے ہوتے ہیں جو ہماری کائنات، وقت، خلا، اور ہماری اپنی ذات کے حوالے سے ہوتے ہیں۔’

Drives

Katie Bouman
اس مشترکہ ٹیلی سکوپ سے ملنے والا مواد اتنا زیادہ تھا کہ اسے انٹرنیٹ کے ذریعہ منتقل کرنا ممکن نہ تھا چناچہ اس تمام مواد کو ہارڈ ڈسک میں جمع کر کے امریکی شہر بوسٹن اور جرمنی کے شہر بون بھیجا گیا

کوئی اکلوتی ٹیلی سکوپ اتنی طاقتور نہیں ہے کہ وہ بلیک ہول ہو خود سے دیکھ سکے۔

اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہارورڈ یونیورسٹی اور سمتھ سونین سینٹر فار آسٹرفزکس کے پروفیسر شیپرڈ ڈولمین نے ایک منصوبہ تیار کیا جس میں دنیا بھر کی آٹھ طاقتور ٹیلی سکوپ کو آپس میں منسلک کر کے انھیں ‘ایونٹ ہورائزن ٹیلی سکوپ’ کا نام دیا گیا۔

اس مشترکہ ٹیلی سکوپ سے ملنے والا مواد اتنا زیادہ تھا کہ اسے انٹرنیٹ کے ذریعہ منتقل کرنا ممکن نہ تھا۔ چناچہ اس تمام مواد کو ہارڈ ڈسک میں جمع کر کے امریکی شہر بوسٹن اور جرمنی کے شہر بون بھیجا گیا تاکہ اس میں سے جمع کی گئی معلومات کا تجزیہ کیا جا سکے۔

پروفیسر شیپرڈ ڈولمین نے کہا کہ یہ ایک انتہائی حیران کن سائنسی کارنامہ ہے۔ ہم نے ایک ایسا کام سر انجام دیا ہے جو نسلوں پہلے ناممکن سمجھا جاتا تھا۔’

اس منصوبے پر کام کرنے والی ٹیم اب نظام شمسی کی کہکشاں ملکی وے کے بیچ میں واقع ‘سپر ماسیو’ بلیک ہول یعنی نہایت ہی بڑے سائز کے بلیک ہولز کی تصویر لینے کی کوشش کر رہی ہے۔

حیران کن طور پر دور دراز کے بلیک ہول کی تصویر لینا ہماری اپنی کہکشاں کے بلیک ہول کی تصویر لینے سے زیادہ دشوار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp