’مذہب کی تبدیلی کا عمر سے ہی تعین ہو گا‘


خاتون

پاکستان کی دو عدالتوں نے مذہب کی تبدیلی کے معاملے پر دو مختلف فیصلے دیے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کسی لڑکے یا لڑکی کی مرضی سے بالاتر اس کی عمر ہی وہ ذریعہ ہے جس سے عدالت فیصلہ دے گی۔

بدھ کو لاہور ہائی کورٹ نے 14 سالہ مسیحی لڑکی جسے مبینہ طور پر اغوا کرنے کے بعد زبردستی اسلام قبول کروایا گیا تھا کو اپنے والد کے ساتھ جانے کا حکم دیا۔

جبکہ آج جمعرات کو عدالت نے ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی دو لڑکیوں کو، جو کہ اب مسلمان ہو چکی ہیں، اپنے شوہروں کے ہمراہ جانے کی اجازت دی۔

پاکستان کے قانون میں بلوغت کی عمر 18 برس ہے۔

قانونی ماہر اسد رحیم خان نے بی بی سی کی نامہ نگار حمیرا کنول سے گفتگو میں بتایا کہ اس وقت جو طریقہ کار اور قانون رائج ہے وہی مستقبل کے لیے بھی رہے گا یعنی کہ ’اگر بچہ کمر عمر ہے تو اس کی مرضی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ لیکن اگر وہ بالغ ہے تو اس کی مرضی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ 18ویں ترمیم کے بعد مذہبی آزادی کا معاملہ صوبوں کے تحت ہے سندھ میں زبردستی مذہب کی تبدیلی کو روکنے کے لیے بل آیا لیکن شاید ابھی تک پاس نہیں ہو سکا۔

مزید پڑھیے

’اقلیتیں محفوظ ہیں، یہ کہنا نہیں محسوس بھی کروانا ہے‘

جبری تبدیلیِ مذہب کے خلاف مجوزہ قانون کی راہ میں رکاوٹیں

’اسلام میں جبر نہیں، ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوگی`

انھوں نے جسٹس تصدق حسین جیلانی کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ ’سپریم کورٹ میں سنہ 2104 کا فیصلہ بہت اہم ہے۔ قانون کا آرٹیکل 20 اس کی وسیع انداز میں تشریح کرتا ہے۔ ابھی مزید قانون سازی کی ضرورت ہے۔‘

وہ کہتے ہیں سندھ اور پنجاب حکومت کو سختی سے نوٹس لینا ہو گا کہ یہاں پورے کے پورے جرائم پیشہ گروہ ہیں جو ان لڑکیوں کو اغوا کرتے ہیں اور مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

قانونی ماہرین کے مطابق قوانین کو مزید مضبوط کرنے کے لیے حکومت میں شامل جماعتوں کے اتفاق رائے کی اہمیت ہے۔

ایڈوکیٹ انیلہ شاہین کہتی ہیں کہ اسلامی قوانین کو نہ تو ہندو مذہب میں اور نہ ہی مسیحت میں نافذ کروایا جا سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ابھی قانون میں اس حوالے سے بہت کام کیا جا سکتا ہے۔ اس میں تھوڑے کام اور ریسرچ ورک کی ضرورت ہے لیکن ایوان میں موجود لوگ جو قانون بنا رہے ہیں ان کے پاس اس کا علم ہی نہیں ہے تو بتائیں وہ کیا بنائیں گے اور کیا نافذ کریں گے۔

مذہب کی تبدیلی زبردستی نہیں ہوئی مگر۔۔

نامہ نگار سحر بلوچ کے مطابق جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں گھوٹکی سے تعلق رکھنے والی بہنوں کی تحفظ کی درخواست پر سماعت کے دوران سیکرٹری داخلہ اعظم سلیمان نے عدالت کو کیس میں اب تک کی تمام پیشرفت سے آگاہ کیا۔

پاکستان

عدالت نے انکوائری کمیشن کو اگلی سماعت تک اپنی رپورٹ اور حتمی سفارشات پیش کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے سماعت 14 مئی تک ملتوی کردی

سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ دونوں بہنوں رینہ اور روینہ کی عمر جاننے کے لیے میڈیکل ٹیسٹ بھی کروایا گیا ہے جس کے مطابق دونوں بہنوں کی عمریں 19 اور 18 سال ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت یہ جاننا چاہتی تھی کہ آیا لڑکیاں بالغ ہیں اور کیا وہ اپنی مرضی سے اسلام قبول کر رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سیکشن 164 کے تحت دونوں بہنوں کے بیانات ہوچکے تھے جس کے بعد مزید کارروائی کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔’لیکن ہم پھر بھی یہ چاہتے تھے کے ایسا تاثر نہ جایے کے جلد بازی میں فیصلہ کیا گیا۔ کوئی شبہ نہیں رہنا چاہیے کہ تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔‘

عدالت میں ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق چییرپرسن اور بہنوں کے کیس میں بنائی گئی کمیشن کے رکن آئی اے رحمان نے کہا کہ ’اب تک کے بیانات اور حالات کو دیکھتے ہوئے اس کو جبری طور پر مذہب تبدیل کروانا نہیں کہا جاسکتا لیکن سہولت کے طور پر یہ ضرور استعمال کیا گیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ مذہب تبدیل کروانے والے اداروں اور سینٹرز کے طریقہ کار کو کسی قانون کا پابند بنایا جائے۔

آئی اے رحمان نے بتایا کہ دونوں لڑکے اور لڑکیوں کے بیانات میں تضادات پائے گئے اور جب لڑکیوں کو پنجاب لایا گیا تھا تو اس سے یہ تاثر ضرور پیدا ہوا کہ چونکہ پنجاب میں شادی کرنے کی عمر سندھ کے مقابلے میں کم ہے اس لیے ان کو یہاں لایا جا رہا ہے۔

کمیشن آن دی سٹیٹس آف وومن کی چیئرپرسن خاور ممتاز نے کہا کہ اس بات کا تعین کرنا پڑے گا کہ ’اب تک جبری طور پر مذہب تبدیل کرنے کے بارے میں کوئی قانون نہیں ہے جس کو سامنے رکھ کر یہ دیکھا جاسکے کہ کس عمر میں مذہب تبدیل کیا جاسکتا ہے اور اسی کے مطابق پھر قوانین بنائے جائیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’یہ دیکھنا ضروری ہے کہ مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ کب اور کیوں لیا جاتا ہے؟‘

پاکستان تحریکِ انصاف کے پارلیمانی رکن رمیش کمار نے کہا کہ ’ایوان میں اقلیتی ارکان کو بات کرنے نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے جبری طور پر مذہب تبدیل کرنے کے کیس پر قوانین بنانا مشکل ہوجاتا ہے۔ اگر عدالت پارلیمنٹ کو تنبیہ کرے تو شاید وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں۔‘

اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ ’کافی شرمندگی کی بات ہے کہ پارلیمانی وزیر کے ہوتے ہوئے عدالت ان کو قوانین بنانے کا حکم جاری کرے۔ ’ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمانی ارکان خود ان معامالات کی نشاندہی کریں کیونکہ وہ بہتر طریقے سے کرسکتے ہیں۔ اگر حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان کہیں کہ ہم بے بس ہیں تو پھر عدالت کیا کرسکتی ہے؟‘

چیف جسٹس نے کہا کہ بہت سی باتوں پر حکم دینا اس عدالت کے دائرہ کار میں نہیں ہے۔

شالٹ مسیح کی فروخت اور مذہب کی تبدیلی

لاہور ہائی کورٹ

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق سلیم شیخ نے بدھ کو صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کے رہائشی جاوید مسیح کی حبس بےجا سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔

لڑکی نے عدالت کو بتایا کہ اسے اغوا کر کے زبردسی اسلام قبول کروانے کے بعد اس کی شادی ایک مسلمان لڑکے سے کی گئی تھی جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ اسلام میں جبر نہیں ہے اور کسی کی رضامندی کے بغیر اسے اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’اقلیتیں محفوظ ہیں، یہ کہنا نہیں محسوس بھی کروانا ہے‘

’فیصلہ حق میں، بیوی واپس آ گئی، لیکن خوف نہیں جاتا‘

جبری تبدیلیِ مذہب کے خلاف مجوزہ قانون کی راہ میں رکاوٹیں

’اسلام میں جبر نہیں، ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوگی`

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل کی بیٹی شالٹ مسیح کو چند مسیحی نوجوانوں نے اغوا کرنے کے بعد چند روز تک حبس بےجا میں رکھا اور بعدازاں اسے ظفر نامی شخص کو فروخت کر دیا۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ظفر نامی شخص نے ان کی بیٹی شالٹ مسیح سے زبردستی اسلام قبول کروا کے اس کے ساتھ ان کی رضامندی کے بغیر نکاح کیا۔

ان کے مطابق لڑکی کے اغوا کے بارے میں متعقلہ تھانے میں رپورٹ بھی درج کروائی گئی تھی لیکن پولیس نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔

مسیحی لڑکی نے عدالت کو بتایا کہ اغوا کاروں اسے دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے اسلام قبول نہ کیا تو وہ اس کے والد اور دیگر رشتہ داروں کو جانی اور مالی نقصان پہنچائیں گے۔

شالٹ مسیح کے بقول انھوں نے اپنی مرضی کے خلاف اسلام قبول کیا تھا۔

دستاویز

سماعت کے دوران عدالت میں ایک دستاویز بھی پیش کی گئی جو کہ شالٹ مسیح کے اسلام قبول کرنے سے متعلق ہے اور اس دستاویز کے مطابق اسلام قبول کرنے کے بعد شالٹ مسیح کا نام عائشہ رکھا گیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے سندھ سے دو ہندو لڑکیوں کے مبینہ اغوا اور انھیں مسلمان کرنے کے بعد صوبہ پنجاب کے علاقے رحیم یار خان منتقلی کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب کو واقعے کی فوری تحقیقات کا حکم دیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp