تھل کے بچوں کی تعزیت؟


تھل کی دھرتی پر ابھی 9 جماعت کی 7 طالبات کی گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سرائے مہاجر سے واپسی پر ملتان میانوالی روڈ المعروف خونی روڈ پر بدترین حادثہ میں ہلاکت کا معاملہ زیر بحث تھاکہ اس خونی روڈ پر ایک اور حادثہ میں وانڈھا غیرت کا رہائشی موٹرسائیکل سوار اسد خان عمر 27 سال جوکہ اپنے دوبچوں باسم خان عمر 8 سال اور زنیب فاطمہ عمر 5 سال کو سکول چھوڑنے جارہا تھا کو بچوں سمیت ٹرالر نے کچل ڈالا۔ اس طرح یوں ایک اور گھر روڈ دہشت گردی کا نشانہ بن گیا ہے لیکن چاروں طرف خاموشی ہے۔

اس حادثہ پر بھکر اور میانوالی ہی نہیں بلکہ پورے تھل کی فضا سوگوار ہے۔ یاد رہے کہ میانوالی ملتان روڈ پر یہ کوئی پہلا حادثہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کو آخری حادثہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ سادہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت نے ابھی تک اس ایم ایم روڈ المعروف خونی روڈ کو موٹروے میں تبدیل کرنے کی طرف کوئی پیشرفت نہیں کی ہے۔ سرائے مہاجر سکول کی 7 طالبات کی ہلاکت کے بعد جب تھل کی دھرتی خون خون تھی، ادھر ابھی ان معصوم بچیوں کی قبروں کی مٹی بھی نہیں سوکھی تھی، بھکر کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر افضل خان ڈھانڈلہ اور دیگر کی طرف سے بھکر میں مشاعرے کا انعقاد کرکے لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کی گئی ہے۔

ان کی اس کارروائی کو کسی طرح بھی مناسب نہیں سمجھا جا رہا۔ اس وقت ہمارے شعراء کو بھی چاہیے تھا کہ وہ بھی اس بات کا خیال کرتے کہ خونی روڈ پر حادثہ میں قیامت گزرگئی ہے اور ڈھانڈلہ کو اپنے جذبات سے آگاہ کرتے کہ اس صورتحال میں جب تھل میں اس حادثہ پر ہر آنکھ اشکبار ہے، اس وقت مشاعرے کی تاریخ تبدیل کرلی جائے اور معصوم بچیوں کی قبروں کی مٹی کو سوکھنے کا وقت دیا جائے لیکن ایسا نہ کرنے سے کوئی مثبت پیغام نہیں دیا گیا۔

ادھر بھکر کی انتظامیہ کو بھی چاہیے تھا کہ وہ مشاعرے کی اجازت دیتے وقت اس بات کو ذہن میں رکھتی کہ اس وقت بھکر ہی نہیں تھل میں سوگ کا عالم ہے اور بچیوں کی اتنی بڑی تعداد میں ہلاکت پر ہر دل دکھ اور کرب میں مبتلا ہے لیکن کیا کیا جائے؟ یہاں سب اپنی کارروائیوں میں اتنے مصروف ہیں کہ ان کو اس بات سے غرض نہیں کہ عوام پر کیا گزر رہی ہے؟ ادھر تھل میں 7 طالبات کی ہلاکت پر جوگزری سو گزری ہے لیکن اس بات کا اندازہ ہو گیا ہے کہ یہاں تعزیت بھی طاقتور اور اعلی عہدوں پر فائز افراد کے ساتھ کرنا ضروری ہوتی ہے، تھل جیسے علاقوں میں درجن بھر سکول جاتے اور آتے بچے حادثہ میں مارے جائیں تو کوئی اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ ان دکھی والدین کے پاس جاکر ان کے پھول جیسے بچوں کی تعزیت کی جائے اور ان کی دلجوئی کی جائے۔

ان کے غم کی اس گھڑی میں ان کو احساس دلایاجائے کہ سب ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کے والد محترم فتح محمد بزدار کی وفات پر تعزیت بنتی تھی اور ان کے دکھ میں شریک ہونے کی ضرورت تھی۔ یوں پھر سب نے دیکھاکہ کون سا حکومتی عہدیدار ہوگا اور رکن قومی وصوبائی اسمبلی ہوگا جوکہ عثمان بزدار کے پاس ان کے والد کی تعزیت کے لئے نہیں گیا۔ سب نے اچھا کیا ہے، دکھ کی گھڑی میں ایسے ہی ہونا چاہیے تھا لیکن کیا گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سرائے مہاجر بھکر کی 7 معصوم طالبات جوکہ خونی روڈ پر ایک ہی حادثہ میں موت کے منہ میں چلی گئیں تھیں، ان کے گھر وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار، کابینہ ارکان، اسپیکراور ارکان اسمبلی کو ان کے ساتھ تعزیت نہیں جانا چاہیے تھا؟

یا پھر اس مشکل گھڑی میں ان سب سے منہ موڑ لینا چاہیے تھا اور والدین کو اکے لئے چھوڑدینا ہی درست فیصلہ ہے۔ راقم الحروف کا خیال تھا وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار اپنے والد فتح محمد بزدار کے قل اور دیگر رسومات کی ادائیگی کے بعد پہلا کام یہ کریں گے کہ وہ بھکر ان 7 طالبات اور رکشہ ڈرائیور جوکہ بس حادثہ میں ملتان میانوالی روڈ پرمارے گئے ہیں، ان کی تعزیت کے لئے ان کے گھر جائیں گے اور والدین کو دلاسہ دیں گے اور ان کے دکھ کو کم سے کم کرنے کی کوشش کریں گے، اسی طرح وزیراعظم عمران خان کے حلقہ انتخاب میانوالی تعزیت کے لئے جائیں گے، جہاں خونی روڈ پر اسد خان کو دوبچوں باسم خان اور زنیب فاطمہ سکول چھوڑنے کے دوران ٹرالر نے کچل ڈالاتھا لیکن وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے ایسا نہیں کیا۔

عثمان بزدار کی طرف سے ان طالبات کے گھروں میں نہ جانے کا فیصلہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جن کے گھر ماتم ہوا ہے، وہ لوگ خاص نہیں تھے، بچیاں معصوم تھیں لیکن تھیں ایسے لوگوں کی بیٹیاں جوکہ سیاسی میدان میں اتنے طاقتور نہیں تھے کہ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار تعزیت کرنے جاتے اور ان کے دکھ کم کرنے کی کوشش کرتے۔ ادھر ان دو حادثات میں مارے جانیوالی طالبات اور بچوں کے لواحقین کی مالی امداد کا اعلان بھی نہیں کیا گیا جبکہ ڈیرہ غازی خان کے ضلع میں حادثہ ہوتا ہے تو وزیراعلی عثمان بزدار ان کی مالی امداد کرتے ہیں۔

اس بات کا تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ عثمان بزدار ڈیرہ غازی خان تک کام کرتے ہیں جبکہ تھل جیسے پسماندہ علاقہ کی طرف کوئی منصوبہ دینے پر تیارنہیں ہیں اور اب تو حد یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ تھل میں اتنے بڑے حادثہ پر امداد تو درکنار تعزیت کے لئے بھی نہیں جاتے ہیں۔ اس طرح کی دوغلی پالیسی وزیراعلی جیسے منصب پر فائز شخصیت کے لئے مناسب نہیں ہے۔ پھر اہم سوال یہ ہے آخر ملتان میانوالی روڈ کو، جو خونی روڈ کی پہچان پا چکی ہے، موٹروے کب بنایا جائے گا؟ اس بارے میں وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کوئی وضاحت کریں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).