سب کشف اور کمال ہیں روٹی کے واسطے


ہم لوگ بھی عجیب ہیں اگر بدقسمتی سے کوئی ذیابیطس یا بلند فشارِ خون یا دل کے عارضے میں مُبتلا ہو تو اپنے معالج کی تحریر کردہ دوائیں لینے کی بجائے لوگوں کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں۔ ایک کہتا ہے زیادہ دوا مت کھانا معدہ خراب ہوجائے گا۔ دوسرا کہتا ہے وہ دوا مت لینا گردوں پر اثر کرتی ہے۔ تیسرا کہتا ہے فلاں دوا لینے سے بینائی متاثر ہوتی ہے وغیرہ غرض جتنے منہ اُتنی باتیں۔ اس عمل میں ہوتا یہ ہے کہ متاثرہ شخص کا مرض وقت پر دوا نہ لینے سے بڑھ جاتا ہے اور اُسے جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔

دوا ناگزیر ہوجاتی ہے تو جان بچانے کے لیے ہم وہی سب دوائیں لینا شروع کرتے ہیں جو نیم حکیموں کے کہنے پہ چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال عمران خان صاحب کا ہے۔ 19 جنوری 2019 کو ساہیوال کا دلخراش واقعہ وقوع پذیرہوا جس پہ ہر آنکھ اشک بار تھی، ہر قلم نے یہ دکھ صفحۂ قرطاس پر بکھیرا۔ عمران خان کو فوری طورپر ہنگامی صورتحال پہ وہاں جانا چاہیے تھا لیکن آج پورے اڑھائی مہینوں کے بعد وہ اس دوا کے طور پر جو زندگی بچانے کے کام آتی ہے سانحۂ ساہیوال کے متاثرین سے ملنے کو پہنچے۔

اُنھوں نے ورثا سے گہرے رنج کا اظہار کیا اور حکومت کی جانب سے ورثا میں تین کروڑ کے چیک پیش کیے۔ واقعے کی تحقیقات پہ جے آئی ٹی بنانے کا حکم دے دیا۔ بہت دریا دلی کا مظاہرہ کیا۔ دیکھیں جے آئی ٹی کتنے عرصے میں کام کرتی ہے کیونکہ ہمارے وطنِ عزیز میں جے آئی ٹی بنانے کا دستور پرانا ہے مگر عملی اقدامات پر عُمروں کا انتظار درکار رہتا ہے۔ دوسری طرف کے پی کے اسمبلی کے سپیکر صاحب فرما رہے ہیں ”حکمت اور دانش مندی سے ہمیں چلنا پڑے گا۔ دو روٹیوں کی بجائے ہمیں ایک روٹی پہ کچھ عرصے اکتفا کرنا ہوگا لیکن انشا اللہ، اللہ وہ دن ضرور لائے گا اور بہت جلد کہ دو کی بجائے آپ ڈھائی روٹیاں کھا سکیں ”۔ اُن کی اعلیٰ ظرفی کا منہ بولتا ہوا یہ حکمت سے بھرپور جملہ سُن کرمجمع دیر تک اپنی انگلیاں دانتوں میں دبائے کھڑا رہا اتنے میں کسی سیانے نے ٹہوکا مار اکہ دانش وری کی اس بات پہ تالیاں پیٹنی ہیں۔ بس پھر کیا تھا مجمع شروع ہوگیا ایک تواترسے تالیاں پیٹنے اور گھنٹوں تالیاں پیٹنے کے بعد جب وہ تھک گئے تو بھوک سے اُن کے پیٹ بِلبِلا اُٹھے۔

تب خیال آیا روٹی کھُلی کہ نہیں پتہ چلا روٹی کھُل گئی ہے۔ روٹی کھانے بیٹھے تو سب کا من پسند چکن قورمہ تھا۔ ایک روٹی کھاچُکنے کے بعد سب نے ہاتھ روک لیے مگر پیٹ کی بھوک زوروں پہ تھی پھر سوچا کہ کم روٹی کھانے سے ایک تو گُندھا ہوا آٹا خمیر ہو کر بیکار ہوجائے گا اور ضائع ہونے سے گناہ الگ ہوگا۔ دوسرے اگر ہم سب ایک ایک روٹی کھانے لگے تو بے چارے غریب دہقان کی گندم کو پڑے پڑے گھُن لگ جائے گا اوراس کی محنت سے کمائی ہوئی گندم یقینا کم بِکے گی اور اس وجہ سے پھر سے ملک غربت کا شکار ہوگا۔

ہم کیوں مشتاق احمد غنی کی دانش مندی اور حکمت کا شکار ہوکر روٹی کم کھائیں۔ دفع کریں جی کیوں ملک میں موجود دہقان کی غربت کا باعث بنیں۔ بس دل میں یہ خیال آتے ہی سب نے خوب ڈٹ کر روٹیاں کھائیں اور قورمے اور گرما گرم روٹی کا خوب مزہ لیا۔ یوں بھی پاکستانیوں کی بنیادی غذا گندم کی روٹی ہی ہے جو تقریباً 80 سے 90 فی صد ہر کھانے میں استعمال ہوتی ہے۔ غریب طبقے کے لیے گندم کی روٹی توانائی بہم پہنچانے کا واحد اور سستا ترین ذریعہ ہے جس میں پروٹین بھی پائی جاتی ہے۔

ویسے بھی مشتاق احمد غنی صاحب کو کہنے کو دل چاہتا ہے کہ غنی صاحب نام کے تو۔ ”غنی“ ہیں مگر نکلے کتنے ”بُخیل“ ایک سے زیادہ روٹی کا سواد آپ کیا جانیں۔ دوسرے اگر روٹی جو بنیادی غذا اور توانائی کا سستا ماخذ ہے تو پھر بسکٹ اور ڈبل روٹی یا کیک وغیرہ تو ایک ٹکڑے کا صرف ایک چوتھائی حصّہ ہی کھا سکتے ہیں جب تک کہ حالات سازگار نہ ہوجائیں اور ہماری معیشت ہمیں اڑھائی روٹیوں تک نہ لے آئے۔ یہاں مجھے عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی ؔ یاد آرہے ہیں۔ اُن کی مشہور نظم قارئین کی نذر کرتی ہوں :

جب آدمی کے پیٹ میں آتی ہیں روٹیاں

پھُولی نہیں بدن میں سماتی ہیں روٹیاں

آنکھیں پری رخوں سے لڑاتی ہیں روٹیاں

سینے اَپر بھی ہاتھ چلاتی ہیں روٹیاں

سو سو طرح کی دھوم مچاتی ہیں روٹیاں

جس جا پہ ہانڈی چُولہا توا اور تنور ہے

خالق کی قدرتوں کا اُسی جا ظہور ہے

Gچولہے کے آگے آنچ جو چلتی حضور ہے

جتنے ہیں نور سب میں یہی خاص نور ہے

پیڑا ہر ایک اس کا ہے برفی و موتی چُور

ہرگز کسی طرح نہ بجھے پیٹ کا تنور

اس آگ کو مگر یہ بجھاتی ہیں روٹیاں

روٹی نہ پیٹ میں ہو تو پھر کچھ جتن نہ ہو

میلے کی سیر خواہش باغ و چمن نہ ہو

سو سو طرح کے ناچ دکھاتی ہیں روٹیاں

کچھ بھانڈ بھیگتے یہ نہیں پھرتے ناچتے

یہ رنڈیاں جو ناچے ہیں گھونگھٹ کو منہ پہ لے

اس پردے میں یہ اپنے کماتی ہیں روٹیاں

اشرافوں نے جو اپنی یہ ذاتیں چھپائی ہیں

سچ پوچھیے تو اپنی یہ شانیں بڑھائی ہیں

اشراف سب میں کہییے تو اب نان بائی ہیں

دنیا میں اب بدی نہ کہیں اور نکوئی ہے

یا دشمنی اور دوستی یا تندخوئی ہے

کوئی کسی کا اور کسی کا نہ کوئی ہے

سب کوئی ہے اسی کا جس ہاتھ ڈوئی ہے

نوکر نفر غلام بناتی ہیں روٹیاں

روٹی کا اب ازل سے ہمارا تو ہے خمیر

روکھی ہی روٹی حق میں ہمارے ہے شہد و شیر

یا پتلی ہووے موٹی خمیری ہو یا فطیر

گیہوں جوار باجرے کی جیسی ہو نظیر

ہم کو تو سب طرح کی خوش آتی ہیں روٹیاں

تو جناب! نظیر اکبر آبادیؔ اٹھارویں صدی کے عوامی شاعر تھے۔ عام لوگوں کے روزمرہ کے مسائل فہم اور سادہ شاعری میں صاحب ِ اقتدار لوگو ں تک پہنچایا کرتے تھے۔ سوچیے! اُس دور سے لے کر آج کے دورِ جدید میں بھی ”روٹی“ ہی بنی نوع انسان کا مسئلہ رہی ہے۔ زندگی میں جو سارے کھیکن انسان کرتا ہے وہ روٹی ہی کے لیے کرتا ہے اور اگر اس بد نصیب کو پیٹ بھر روٹی ہی نصیب نہ ہو تو کیا فائدہ؟ اول تو پاکستان میں 70 فی صد آبادی دیہات میں رہنے والوں کی ہے اور وہاں پہلے ہی اناج کم ہونے کی وجہ سے اُنھیں مقدور بھر کھانا نصیب نہیں ہوتا۔

اکثر اوقات اُنھیں روٹی کے ساتھ سالن بھی کم ہی میسر ہوتا ہے۔ اچھے اچھے مسالے ڈال کر کھانا پکانا اور پھلوں کا وافر استعمال بھی اُن کی پہنچ سے دُور ہی ہوتا ہے۔ اس پر صرف ایک روٹی پر اکتفا کرنا سونے پہ سہاگہ کے مترادف ہے۔ اگر سماج کے دبے، کُچلے اور نچلے طبقے کے لوگوں کے مسائل حل نہ ہوں تو حکومتیں کس کام کی ہیں؟ ہمارے قومی مسائل اتنے پیچیدہ ہوچکے ہیں کہ اگر انہیں سلجھانے بیٹھ جائیں تو مسائل کے ان دھاگوں کی گرہیں کھُلتی نظر نہیں آتیں۔

حکومت اور ارباب ِ اختیار کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ لوگوں کی جان و مال کا تحفظ اور روزگار کے مناسب اسباب کی فراہمی ان کا بنیادی فرض ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر ایک ہی Fixed Focus جس کی پہلی ترجیح ملکی فلاح ہونی چاہیے اس نقطے پہ کام کا آغاز کرنا چاہیے۔ قوم کے غم خواروں میں حاکم طبقہ اور رہبر نہ ہوں تو سوچیے ہماری قوم کا کیا حال ہو۔ صرف یہی اشراف ایک ٹولہ ہے جو ملک و قوم کو سنبھالے ہوئے ہے۔ معلوم نہیں کب ملک کے سیاسی و سماجی ادارے دیانت داری سے اپنا اپنا کام کریں گے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہونے والی بدعنوانیوں کی وجہ سے 60 فی صد قومی معیشت کالا دھن جس پہ کوئی ٹیکس نہیں وصول ہوتا کا حصّہ ہے۔ آخر یہ کمی کب اور کس طرح پوری ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).