دورہ عربستان، مظلومینِ ساہیوال اور قرون اولیٰ کے عدل کے نمونے


اگلے روز چشم فلک نے وہ حیران کن مناظر دیکھے جن کے بارے میں تاریخ کی کتابوں میں کچھ پڑھنے کو ملے تو ملے، حقیقت میں مدت مدید سے ایسے واقعات کا ظہور پذیر ہونا عنقا ہے۔

وزیراعظم پاکستان عربستان کے ایک ملک قطر کے دورے پر تھے جب انہیں اطلاع موصول ہوئی کہ ان کی قلمرو کی مشرقی ریاست پنجاب کے جنوبی حصے میں ساہیوال نامی قصبے میں چند زور آوروں نے دن دہاڑے ایک قافلے میں شامل چار افراد قتل کر دیے۔ قتل ہونے والوں میں دو مرد، ایک عورت اور ایک نوعمر لڑکی شامل تھے۔ لڑکی مرنے والے ایک مرد اور عورت کی بیٹی تھی۔ انہی میاں بیوی کی دو کمسن بچیاں اور ایک بچہ بھی تھا جو اس واقعے میں زخمی ہوئے۔

قریب تھا کہ اس صریح ظلم پر وزیراعظم کا خون کھول اٹھتا اور وہ اسی وقت سرکاری مصروفیات ترک کر کے قطر سے کوچ کا اعلان کر دیتے کہ مشرقی ریاست کے شاہی داروغہ نے اعلان کر دیا کہ مرنے والے دہشت گرد تھے اور مملکت میں فساد پھیلانے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھے۔ شاہی داروغہ کی اس اطلاع کی تصدیق وزیراعظم کی کابینہ میں شامل ایک وزیر باتدبیر نے بھی کی جن کا قلمدان ہی اطلاعات کی فراہمی ہے۔

تاہم تھوڑی دیر کے بعد پتہ چلا کہ شاہی داروغے اور وزیر باتدبیر نے تو نیک نیتی سے کام لیا تھا کہ بلاد عرب میں کاروبار مملکت نپٹاتے وزیراعظم اپنی قلمرو سے ظلم و جور کی خبریں آنے پر پریشان نہ ہوں تاہم ساہیوال میں مرنے والے دہشت گرد نہ تھے۔ انہیں ناحق مارا گیا تھا اور زور آور بھی ایک ریاستی ادارے کا حصہ تھے۔ ان اہلکاروں نے سرکاری اسلحے سے ساہیوال کے دیہاتیوں پر نشانے پختہ کیے تھے۔

اس خبر کا سامنے آنا تھا کہ مملکت میں ہر طرف غم و غصّے کی کیفیت اور ہراس پھیلا گیا۔ میلوں دوری پر بیٹھے وزیراعظم بھی اس کیفیت سے پریشان اور دکھی ہو گئے۔ انہوں نے فی الفور واپس وطن کی جانب کوچ کا اعلان کیا اور آنے سے پہلے کبوتر کے ذریعے پیغام ارسال کر دیا کہ وطن کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی میرا پہلا کام ساہیوال کے مظلوموں کو انصاف کی فراہمی ہو گا۔

دن رات منزلوں پر منزلیں مارتے وزیراعظم کا بادبانی سفینہ گزشتہ روز مملکت خداداد کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہوا تو بنا کسی توقف کے وزیراعظم اس اسپ تازی کی پشت پر جا بیٹھے جو پہلے سے ہی بندرگاہ پر پہنچا دیا گیا تھا۔ ساتھ آنے والے مصاحبوں نے دست بستہ عرض بھی کی کہ حضور وزیراعظم ہاؤس چلیں اور دو گھڑی سستا لیں۔ لیکن وزیراعظم نے یہ بات نہ مانی اور ساہیوال کا رخ کر کے گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔

راستے میں وزیراعظم کو خیال آیا کہ مظلوم خاندان میں ماں باپ تو بڑی بیٹی سمیت مارے جا چکے ہیں، گھر میں محض چھوٹے بچے ہیں تو خواہ مخواہ خاطر داری میں پڑ کر پریشان ہوں گے۔ کیونکہ بھلے ماتم والا گھر تھا لیکن ایک محبوب اور ہردلعزیز رہنما کے گھر تشریف لانے پر وہ خاطر داری کو دوڑ پڑتے۔ یہ خیال آنا تھا کہ انہوں نے بجائے ساہیوال کے گھوڑے کا رخ مشرقی ریاست کے صدر مقام لاہور کی جانب کر لیا۔

وزیراعظم کی منشا پہچان کر ہم رکاب اور مزاج شناس مصاحبین نے ایک تیز رفتار پیغام بر ساہیوال بھیج دیا کہ مقتولین کے لواحقین اور بچوں کو ریاستی صدرمقام بصد عزت و احترام لانے کا بندوبست کیا جائے۔ پیغام رساں نے فی الفور ساہیوال کا رخ کیا۔ وزیراعظم سے پہلے مقتولوں کے ورثا کو لاہور پہنچانے کے لئے وہ راستے میں ہر چوکی سے تازہ دم گھوڑا بدلتا بروقت ساہیوال پہنچ گیا۔ اور مقتولوں کے ورثا جن میں کمسن بچے بھی تھے، شاہی بگھی میں بٹھا کر ریاستی صدر مقام روانہ کر دیے گئے۔

طویل ترین بحری سفر اور گھوڑے کی پشت پر ہزاروں کوس کی مسافت طے کر کے آنے والے وزیراعظم تکان کا شکار تو تھے لیکن ریاستی اہلکاروں کی اس بالادستی پر ان کی بے کلی دیدنی تھی۔ جیسے ہی وہ دیوان خاص میں داخل ہوئے تو مظلوموں کو دیکھ کر جیسے ان کے وجود سے جان ہی نکل گئی۔ غم و اندوہ کا بوجھ شانوں پر سوا تھا۔ قریب دھری نشست پر ڈھے سے گئے۔

وزیراعظم کی اس دردمندی پر سب حاضرین مجلس کا دل دکھ سے بھر آیا۔ مقتول خاندان کے ایک سفید ریش بزرگ پر تو وزیراعظم کی ہمدلی کا اتنا اثر ہوا کہ انہوں جو سر جھکایا تو پھر سر اٹھا کے نہ دیے۔ تکان سے چور لیکن انصاف کا بول بالا کرنے کے لئے پرعزم وزیراعظم نے مقتولوں کے ورثا کا غم بانٹا۔ اسی دوران شاہی خزانے کا مہتمم وہ پروانہ لے آیا جس پر فرمان درج تھا کہ حامل ہذا کو یعنی مقتولوں کے ورثا کو شاہی خزانے سے تین کروڑ اشرفیاں عطا کی جائیں۔

تب وزیراعظم ہمت کر کے اٹھے اور اپنے دست مبارک سے مقتولوں کے ورثا کو یہ پروانہ عطا کیا تاکہ ان کی تالیف قلب ہو سکے۔ کہتے ہیں اس موقع پر وزیراعظم کے عقب میں کھڑے ایک مشیر نے جسے ریاستی صدر مقام پر مشاورت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، وزیراعظم کے کان میں کہا کہ رسم دنیا، موقعے اور دستور کے مطابق ساہیوال کے ان دیہاتیوں کو گلے لگا لیں۔

قریب تھا کہ وزیراعظم ایسا کر گزرتے لیکن شاید ان کے ذہن میں یہ بات آ گئی کہ حالیہ دنوں میں کسی دور دراز چھوٹے سے جزیرے پر ایک غیر مسلم خاتون حکمران نے شاید کچھ ایسا ہی کام کیا تھا۔ یعنی مظلوموں کے گھر جا کر ان کو گلے لگایا تھا۔ یہ خیال آتے ہی وزیراعظم نے دل ہی دل میں شکر کیا کہ وہ انجانے میں ایک غیر مسلمہ کے عمل کی مشابہت کے گناہ سے بچ گئے۔ اسی لمحے انہیں یہ خیال بھی آیا کہ ساہیوال کے دیہاتیوں کے گھر نہ جا کر بھی وہ غیر مسلمہ کی متابعت سے محفوظ رہے تھے۔

روز کے روز تاریخ مرتب کرتے بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ مظلوموں کی دادرسی کے لئے وزیراعظم کی سرعت، انکساری اور انصاف کے لئے بے کلی اور بے چینی نے قرون اولیٰ کے حکمرانوں کی یاد تازہ کر دی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).