انسانی حقوق کے علمبردار


اٹلی سے ہمارے دوست سرور بھٹی صاحب اکثر لکھتے ہیں کہ یہ قوم ٹرک کی لائٹوں کے پیچھے بھاگنے کی عادی ہے۔ یعنی سب بھیڑ چال ہے۔ جس کا اپنا کوئی موقف ہے نہ نظریہ۔ بغیر سوچے سمجھے روبوٹ کی طرح عوام حکومتی نوٹنکی ٹرک کی لائٹوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ اور پھرجب دھوکہ ہو جاتا ہے تو کہتے ہیں ”ترے وعدے پہ اعتبار کیا“۔ یہ عوام آخرکب تک بیوقوف بنتے رہیں گے۔

پنجابی بھائیوں سے معذرت کے ساتھ، ایک سردار جی جنہوں نے نئی نئی موٹر سائیکل چلانا سیکھی تھی اپنے دوستوں پر رعب جمانے کے لئے انہیں مختلف کرتب دکھاتے تھے۔ ایک رات سڑک پر دو موٹر سائیکلوں کی لائٹیں دیکھیں جو برابر چلتی آ رہی تھیں۔ پیچھے بیٹھے دوست سے کہنے لگے کہ یہ سامنے سے جو دوموٹر سائیکلیں آرہی ہیں۔ میں تمہیں ان کے درمیان میں سے موٹر سائیکل نکال کر دکھاتا ہوں۔ جونہی ان کی موٹر سائیکل درمیان میں گئی، ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی۔ سردار جی دوست سمیت سڑک کے کنارے جا گرے اور انہیں چوٹیں بھی آئیں۔

دراصل وہ دو موٹر سائیکلیں نہیں بلکہ ایک ٹرک تھا۔ جس کی ہیڈ لائٹیں آن تھیں۔ نیم بیہوشی کی حالت میں کہنے لگے مجھے کیا پتہ تھا۔ کہ انہوں نے درمیان میں چار پائی بچھائی ہوئی ہے۔ یہی حال ٹرک کی لائٹوں کے پیچھے بھاگنے والے انجان عوام کا ہے۔ مہنگائی نے پہلے ہی غریب عوام کی زندگیاں اجیرن بنا دی ہیں پٹرول کی قیمیوں میں اضافہ پوری رسد و ترسیل کو متاثر کرتاہے۔

جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں تیل کی قیمت 44.52 فی بیرل ہوگئی ہے۔ امپورٹ کرنے کا کرایہ 2.16 ڈالر فی بیرل، ایل سی چارجز بینک چارجز 9 فیصد انشورنس چارجز وغیرہ ٹوٹل۔ 02 1 ڈالر فی بیرل، وارفیج چارجز 2.0 فیصد 1.25 ڈالرفی بیرل آئیل کمپنیز مارجن۔ 90۔ فیصد 1.10 فی صد بیرل۔ ریفائننگ چارجز 1.2 ڈالر فی بیرل۔ 45.32 روپے فی لیٹر حکومت کو پڑتا ہے۔ سیلز ٹیکس 17 فی صد۔ ایکسائز ڈیوٹی 3.15۔ یکم جنوری سے 6 فیصد مزید ٹیکس۔ ٹوٹل ٹیکس 26.15 فیصد فی لیٹر۔ تمام جائز ٹیکسز کے بعد حکومت کو فی لیٹر 57.17 روپے فی لیٹر دینا چاہیے۔ 57.15 روپے سے اوپر عوام سے ایک روپے کم کرکے قوم کو لولی پاپ دے رہی ہے۔

مگر حکومت کے اس قدم پر ٹرک کی لائٹوں کے پیچھے بھاگنے والوں کو اس کی کیا خبر۔ وہ تو روبوٹ بن چکے ہیں۔ ظاہرہے کہ ٹرانسپورٹر کرایہ میں اضافہ کریں گے یاپھراس قدم کے خلاف احتجاج کریں گے۔ اوپر سے بجلی کے نرخوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ایک طرف عوام معشیت کی بدحالی سے پریشان ہیں تو دوسرے طرف ملک میں رہنے والی مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کو اغواکر کے انہیں جبری تبدیلی ِ مذہب و نکاح کروایا جارہا ہے۔

نسل کشی کے اس عمل میں بتدریج تیز ی آ رہی ہے۔ بیشک میڈیا نے اس ایشو پر خاصے پرگرام منعقد کروائے ہیں۔ مگرانسانی حقوق کی تنظیمیں جبری مذہب و نکاح جیسے حساس ایشو پر سرگرم تو ہیں مگر اْتنی شدت سے نہیں جتنی ہونی چاہیے تھی۔ لگتا ہے وہ بھی طاقتور مذہبی فوبیا کے سامنے بے بس ہیں۔ المیہ یہ کہ پاکستان میں انسانی حقوق ایکٹیوٹس میں بھی دوگروپ ہیں ایک وہ جو واقعی کام کرتے ہیں۔ مگر ان میں بھی اکثریت این جی اوز اور نام نہاد لیڈر زکے لبادے میں چھپے بھیڑیے ہیں۔ جو ایسے ایشوز کی تلاش میں رہتے ہیں۔ جن سے ان کی دوکانداری چمکے۔ موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے میٹنگز منعقد کرنا، پریس اور الیکرانک میڈیا پرخبریں لگوا کر دوسروں کے کریڈٹ کو سمیٹنے کی کوشش کرکے وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ قوم کے بہت ہمدرد ہیں۔ یاد رہے کہ یہ معاملہ اتنا آسان نہیں۔ اس کے حل کے لئے سنجیدگی کی اور مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اپنی مضبوط طاقت کا عملی مظاہرہ کرنا پڑے گا اور دوسروں کو اپنے ہونے کا احساس دلانا پڑے گا۔

ورنہ اس سے بھی بدترین حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ ہندو کمیونٹی کی مثال ہمارے سامنے ہے آخر تنگ آ کروہ سندھ میں ہونے والے مسلسل جبری تبدیلی مذہب و نکاح کے خلاف سراپا احتجاج بن گئی ہے۔ اور ان کے ساتھ ان کے تمام سیاسی اور مذہبی لیڈرز کھڑے ہیں۔ اس صورت حال سے نہ صرف ہندو کمیونٹی دوچار ہے بلکہ مسیحی بھی اس کا شکار ہیں۔ ابن الوقت لیڈران اگر حقیقی طور پر اپنی کمیونٹی سے سنجیدہ ہیں تو انہیں انسانی حقوق ایکٹیوسٹ گروپ کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنی چاہیے۔

نا سمجھی کا عالم یہ ہے کہ اس وقت معاملہ جبری تبدیلی مذہب و نکاح کا چل رہا ہے مگر کچھ سیاسی اور نیم سیاسی لوگ نشستیں بڑھانے کی بات کررہے ہیں۔ جو اس سے پہلے بہت سے لیڈرز کرچکے ہیں۔ بے وقت کی راگنی الاپنا قوم کو دھڑوں میں تقسیم کرنے کے مترادف ہے۔ اس وقت یکجہتی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے جبری تبدیلیِ مذہب اور نکاح کے ایشوپر بھرپورآواز بلند کریں۔ کیونکہ لوہا جب گرم ہو تبھی وار کرنا چاہیے۔ لیڈرو ہی ہوتا ہے جو سب کو ساتھ لے کر چلے۔ وہ اپنی سرگرمیوں کسی ایک جگہ تک محدود نہیں رکھتا۔ بلکہ ملکی اور بین العقوامی سطح پر اپنی سر گرمیاں بڑھاتا ہے۔ مگر یہاں تو ہر شہر کی اور ہر بندے کی اپنی اپنی مڈلی ہے۔ جس سے وہ باہر نہیں نکلتا۔

رمیش کمار ہندو ؤں کے حقیقی لیڈرکی طرح ابھر کر سامنے آیا ہے۔ جس نے ہند وؤں کو انصاف یا حقوق نہ ملنے پر مسلم ن لیگ کو خیر آباد کہہ دیا اور پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی۔ سابق دورِ حکومت میں سندھ اسمبلی میں نومبر 2016 میں مسلم فنکشنل کے اقلیتی رکن نند کمار نے اقلیتوں کے تحفظ کا بل اسمبلی سے بھاری اکثریت میں منظور کر والیا۔ جس کے تحت جبری طور پر مذہب کی تبدیلی اور اس میں معاونت پر تین سے پانچ سال قید کی سزا اور مقدمات کی سماعت کے لئے خصوصی عدالتیں قائم کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔

مگر سندھ کے گورنر جسٹس سعید الزمان صدیقی نے دسمبر 2016 میں اقلیتی تحفظ کے اس بل کو ترمیم کے لئے واپس اسمبلی کو بھیج دیا۔ اپنے ترمیمی نوٹ میں انہوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کی مخالفت اور مذہبی جماعتوں کا بھی حوالہ دیا۔ یہ الگ بات تھی کہ سندھ حکومت یعنی پی پی پی کی صوبائی حکومت نے مصلحتوں یا مذہبی جماعتوں کو خوش کرنے کے لئے بار بار یاد دہانی کے باوجود اسے صوبائی اسمبلی میں بحث کے لئے نہیں بھیجا۔ مگر اب ایک بار پھر جی ڈی اے جس کو پی ٹی آئی کی حمایت بھی حاصل ہے کے ہندو رکن نندکمار نے جبری مذہب کی تبدیلی کا بل سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرادیا۔

امید ہے کہ یہ بل اکثریت سے منظور ہو جائے۔ یاد رہے سابق دورِ حکومت میں اسی قسم کا بل صوبہ پنجاب میں شہزاد منشی جو مسلم لیگ ن کے صوبائی رکن تھے۔ صوبائی اسمبلی میں پیش کرنے کی کوشش کی مگر یہ اسمبلی تک پہنچ نہ پایا۔ الیکشن 2018 کے دوران شہزاد منشی نے پاکستان مسلم لیگ ن کو خیر باد کہہ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی۔ مگر ان کے اس بے موقع پارٹی چھوڑنے کا کچھ فائدہ نہ ہوا۔ وہ صوبائی اسمبلی کے رکن نہ بن سکے۔

جہاں رمیش کمار نے صوبہ پنجاب کے نشرواشاعت کے صوبائی وزیر کو ہندو مذہب کے خلاف تضحیک کرنے پر عہدے سے چلتا کیا۔ اور ہندو کمیونٹی کو عزت دلوائی وہاں جبری تبدیلی مذہب و نکاح کی بڑھتی ہوئی تشویشناک صورت حال کے خلاف آواز اٹھا ئی بھی اٹھائی۔ اسی سلسلے میں گھوٹکی کی دو ہندوکمسن لڑکیوں کے جبری تبدیلی مذہب و نکاح کے معاملے کی تفتیش کے دوران ایمز نے ان دونوں کے میڈیکل ٹیسٹ کروائے جس سے عمرکا تعین ہوتا ہے۔ دونوں لڑکیوں کو ایک کو 18 اور دوسری کو 19 سال کا قرار دے دیا گیاہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی جو کہ مایوس کن ہے۔ ہمیں صرف یہ کہنا نہیں کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ ہیں بلکہ ان کو ایسا محسوس بھی کرانا ہے۔ دوسری طرف مولانا میاں مٹھو بہت خوش ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر ہندو اْسے اربوں ر وپے بھی دیں تو وہ لڑکیاں واپس نہیں کریں گے۔ بلکہ وہ انہیں اربوں روپے کی پیش کش کرتے ہیں۔ حکومت کوایسے لوگوں کا منہ بند کرنا چاہیے اور ان کی منفی سرگرمیوں کو بھی روکنا چاہیے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں بدنامی ہو رہی ہے۔ ہر کسی کو اپنی آزادمرضی سے اپنا مذہب اور زندگی بسر کرنے کا حق دیا جانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).