ڈالر تیری پرواز سے جلتا ہے زمانہ


سوشل میڈیا پہ ایک تصویر نظر سے گزری، جس میں ایک بڑا ٹرک کسی کھیت میں بالکل الٹا پڑا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس پہ لکھا ہے، پاکستانی معیشت کی صورت حال۔

اس تصویر کو جب پاکستان میں ڈالر کی پرواز سے ملایا تو لگا کہ بالکل ایسی حالت میں ہی آج کل اس پاک سر زمین کی معیشت ہے۔ لیکن ایک بات جو آج تک ہمارے قومی معیشت دان یہ کہتے نظر آئے ہیں کہ اگر ڈالر کے مقابلہ روپے کی قدر کو کم کر دیا جائے تو ہماری برآمدات میں بے تحاشا اضافہ ہوجائے گا۔ زرمبادلہ بڑھے گا، ملکی معیشت ترقی کی منازل طے کرتی چلی جائے گی۔ مگر دل ہے کہ مانتا ہی نہیں، کیونکہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں آج تک خواب ہزاروں، اور یہ خواب بس خواب بن کے ہی رہ گئے ہیں۔

کوئی تو سمجھائے کہ روپے کی قدر کم ہونے سے برآمدات تو تبھی بڑھے گی۔ اگر کچھ برآمد کرنے کے لئے موجود ہو یا پیدا کیا جار ہا ہے۔ لفظوں اور ہندسوں کا عجیب گورکھ دھندا چل رہا ہے۔ دو چار اکنامکس کی تھیوریز اورکچھ اعدادوں شمار یاد کرو، اور کان آنکھ بند کر کے بس میڈیاپہ پھینک دو۔ اس کے بعد جو ہوگا دیکھا جائے گا۔

ہندسوں کے ہیر پھیر کو ترقی کا نام دے کے پھر سے آنے والے بجٹ کو پیش کرنے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ اور بجٹ کی کہانی کو بھی ہندسوں کی ہیرا پھیری میں ڈال کے سب اچھا ہے کہہ کے بیان کر دیا جائے گا۔ ستر سالوں میں یہی ہندسوں، لفظوں کی کہانیا ں سنائی جا رہی ہیں۔ اور ہم جیسے سادہ لوح انسان ایسی کہانیاں سننے کے عادی ہو گے ہیں۔ اگرچہ صاف دکھائی دے رہا ہوتا ہے، کہ یہ سب گورکھ دھنداہے۔

مگر دل ناداں کو تجھ سے ہیں امیدیں کئی۔ اور امیدوں کے اس جال نے اس بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، کہ پھر سے نئے بجٹ کی باتیں اور اس میں عام شہری کو دی جانے والی سہولیات پہ دل خوشی سے جھوم سا جاتا ہے۔

خیر بجٹ اور بچت کی کئی کہانیاں نہ جانے کب تک یونہی سننے کو ملتی رہے گیں۔ اسی گورکھ دھندے میں آج کل شرح نمو کی باتیں بھی عروج در بام ہیں۔ جس میں موجودہ شرح نمو دو اعشاریہ چھ اور اگلے مالی سال میں دو اعشاریہ چار رہنے کی آئی ایم ایف کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔ موجودہ اوراگلے مالی سال کی شرح نمو اور پچھلے سالوں کی شرح نمو سے عام آدمی کی زندگی پہ اثرات میں کوئی خاص منفی یا مثبت اثر نہیں پڑنے والاہے۔ بنیادی ضروریات کل بھی اس کی بمشکل پوری ہوتیں تھیں اور آ ج بھی اپنی ضروریات پوری کرنا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ عام آدمی کو فائدہ تو تبھی ملے گا جب معاشی منصوبہ بندی میں عام آدمی کو سوچا جائے گا۔ سوچنا بھی کوئی معنی نہیں رکھتا ہے، جب تک کہ اس پہ عمل درآمد نہ کر لیا جائے۔ اورعمل داری کے دعوے دار بھی آج تک کچھ نہیں کر پائے ہیں۔

اب کے پاکستانیوں کو ڈالرکی نچلی اور اونچی پرواز کے دھندے میں جکڑا ہو ا ہے۔ اور ٹماٹر کی قیمت سے لے کے ادویات، فریج، اے سی، گاڑیوں کی قیمتوں میں اتار چڑھاوکا گھن چکر چل رہا ہے۔ اسی کے سحر میں عام آدمی بھی پھنس چکا ہے۔ جسے دیکھوڈالرکی پرواز پہ باتیں کرتے دکھائی دے رہا ہے۔ ڈالر چڑھ رہا ہے، ڈالر گر رہا ہے۔ اسی فریب میں ہماری سوچیں بھی جکڑی جا رہی ہے۔ کسی قسم فلاحی اور پیداواری معاشی منصوبہ بندی پہ نہ بات کی جا رہی ہے۔ اور نہ ہی کوئی مزاحمت اور سوچ اس جانب عام پاکستانی کی جانے کا نام لیتی ہے۔

یہی ہندسوں، ٹارگٹس، ڈالر، خساروں کی کہانیاں سنتے سنتے اس پاک سرزمین کو کئی دہائیاں بیت گئیں ہیں۔ لیکن آج بھی اسی کشمکش میں ہے زندگی کے دروبام کہ شاید ڈالر کی پرواز سے ہمارے حالات بدل جائیں۔ لیکن پرواز چاہے اونچی ہو یا نیچی ہو جائے، موثر معاشی منصوبہ بندی اور ملکی مصنوعات بڑھائے اور ا سے بیرونی منڈیوں تک پہنچائے بغیر معاشی ترقی کا سہانا خواب کبھی بھی پورا نہیں ہو سکتا ہے۔ چائنہ کی بڑھتی ہوئی مصنوعات نے ہی اسے اس مقام تک لایا ہے کہ آج امریکی منڈی کو پچھاڑ کے رکھ دیا ہے۔ اور امریکہ چائنیز مصنوعات کی روک تھام کے لئے بھاری مقدار میں ٹیکس لگانے پہ آگیا تھا۔ اس لئے جب تک ایسی معاشی منصوبہ کو نہیں اپنایا جاتا جس میں ملکی مصنوعات کی بات سر فہرست ہو، تب تک ہر چیز محض خواب ہی رہے گی۔ اور ہم ڈالر کی پرواز کو تکتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).