ترقی پسند دانش کی پشتون روایت


تاریخی لحاظ سے پشتون معاشرے میں ترقی پسند دانش کا بھرپور ظہور بایزید روشان، کے دور سے ہوتا ہے، جسے پشتون معاشرے میں پیر روشان کے نام سے پہچانا جاتا ہے، جب باقاعدہ طور پر ایک روایتی ملا اور ایک جدیدیت اور قومیت کا ادراک رکھنے والے دانشور اور ان دونوں کے حامیوں کے درمیان باقاعدہ علمی اور سیاسی بحث اور جدوجہد شروع ہو جاتا ہے۔ ملا درویزہ دین کے بارے میں مروج روایتی انسانی فکر اور پشتون معاشرت کی انحطاط پذیر روش پر اصرار کرتے ہیں جبکہ بایزید روشان انصاری اس فکر اور روش کو انسانی اور قومی ترقی میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے اسے جدید فکر کی جانب موڑ نے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں سے پشتون معاشرے میں دو واضح بیانیے سامنے آجاتے ہیں۔

ان بیانیوں کے درمیاں ٹکراؤ خوشحال خان خٹک سمیت دیگر بہت سارے قوم پرست اور جدت پسند رہنماووں اور دانشوروں سے ہوتے ہوئے شاہ امان اللہ خان کے دور میں ایک بار پھر نہایت شدت سے پشتون معاشرے میں سامنے اتا ہے جو بظاہر تو شاہ امان اللہ کی ناکامی اور وطن چھوڑنے پر منتج ہوتا ہے لیکن درحقیقت شاہ امان اللہ کی جدید علمی، فکری اور سیاسی جدوجہد کا ثمر تھا کہ ترقی پسند دانش کی بازگشت مختلف ادبی اور سیاسی تحریکوں کی صورت میں ابھرتی  رہی ہے۔ اس سلسلے میں آج کے دور کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں۔

شاہ امان اللہ کے دور میں ہی پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر یہ کوشش کی گئی کہ پشتون علم و دانش اور سیاسی فکر کو دنیا میں موجود دیگر اقوام کے جدید افکار و روش سے آشنا کیا جائے لیکن استعماری قوتوں کی منظم حمایت سے قدامت و روایت پسند قوتوں نے اس کوشش کو دین شکنی اور کفر و الحاد کی سازش کے طور پر معاشرے کے سامنے پیش کیا جس کے بہت سارے نقصانات کے ساتھ ساتھ یہ فائدہ بھی ہوا کہ پشتون معاشرہ پیر روشان کے دور کی طرح ایک بار پھر بلکہ اس سے کہیں زیادہ اور بڑے پیمانے پر دو واضح بیانیوں کے درمیاں ٹکراؤ کی صورت میں سامنے آیا۔

افغانستان میں اقتدار پرستوں، جن کا انحصار نام نہاد دین پرستوں روایت پرستوں کی حمایت پر تھا، کا دور چلا جبکہ متحدہ ہندوستان میں باچا خان کی خدائی خدمتگار اور عبدالصمد خان شہید کی انجمن وطن کی ترقی پسند اور جدت پسند تحریکیں چلیں۔ تقسیم ہند سے پہلے اور بعد میں بھی پشتونوں کی ترقی پسند دانش وسیاست کو دین شکنی کی تلوار سے کاٹنے کی کوشش کی گئی۔ انگریز کے خلاف ہندوستان کی آزادی کی تحریکوں کا ساتھ دینے اور آ زادی کے بعد انسانی و معاشرتی حقوق اور قانون کی بالادستی کے لیے جدوجہد نے پشتون ترقی پسند دانش کو ایک طرف اگر جلا بخشی اور اس فکر کو مزید ابھارنے میں کلیدی کردار ادا کیا تو دوسری جانب غیر پشتون مقتدرہ نے براہِ راست بھی اور پشتون معاشرے میں موجود اور منتظر قدامت پسندوں اور روایتی مشران کے ذریعے اس دانش کو ختم کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔

لیکن پھر بھی ان تحریکوں میں موجود ہزاروں ترقی پسند دانشوروں نے ترقی پسند بیانیہ اور معاشرتی حقوق کی جدوجہد کو جاری رکھا اور ایک پوری نسل کو تربیت دی گئی کہ قدامت پرست اور جابر قوتوں سے نبردآزما رہیں اور خود کو جدید علمی اور فکری دانش کی قوت و راستگی سے لیس کرتے ہوئے انسانی آزادی، امن اور ترقی کے پیامبر بنے رہیں۔

اس تحریک کی فکری آبیاری ادیبوں، شاعروں، اساتذہ کرام او دیگر دانشوروں نے جاری رکھی۔ جنرل ضیاء کی مارشل لاء تک مزاحمتی سیاست میں اس طبقے کی اہمیت مسلم اور قابل قدر رہی۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست کے علاوہ پشتو علم و ادب نے بھی ان سیاسی دانشوروں اور نظریاتی کارکنوں کی ترقی پسند دانش سے خوب فیض حاصل کی۔ نئے موضوعات اور نئے اصناف نے بہت ترقی کی اور ان اصناف نے تو آنے والی نسلوں کے لئے ایک اعلیٰ معیار بھی قایم کیا۔

اجمل خٹک، غنی خان، کاکاجی صنوبر حسین۔ حمزہ شینواری، عبدلاکبرخان اکبر، ماسٹر عبدلکریم، قلندر مومند، لطیف ٓفریدی، ہمیش خلیل، شیر علی باچا، سائیں کمال خان شیرانی، عبدالرحیم مندوخیل، جعفر خان اچکزئی، رحمت شاہ سائیل، افراسیاب خٹک، ڈاکٹر خدائیداد، ملک عبدلعلی کاکڑ، سلیم راز، خیر محمد عارف، درویش درانی اور دیگر سینکڑوں سرکردہ ادیبوں، شاعروں اور وکلا نے پشتون ترقی پسند ادب، دانش اور سیاست میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).