عاطف میاں کہتے ہیں ملک کے لئے نااہلی، کرپشن سے زیادہ نقصان دہ ہے


تحریک انصاف کی حکومت کی پہلی معاشی ٹیم کے اہم پلئیر عاطف میاں تھے جنہیں احمدی ہونے کے تنازعے کی وجہ سے استعفی دینا پڑا تھا۔ وہ عالمی سطح پر ایک ابھرتے ہوئے ماہر معاشیات قرار دیے جاتے ہیں اور ام القری یونیورسٹی مکہ مکرمہ میں ہونے والی پہلی عالمی کانفرنس برائے اسلامی بینکنگ اور فنانس میں انہیں بطور سپیکر بلایا جا چکا ہے۔ وہ اہم ترین امریکی یونیورسٹیوں سے وابستہ رہے ہیں۔

عاطف میاں نے ٹویٹر پر سوال پوچھا کہ ترقی پذیر ملکوں کے لئے بڑا مسئلہ کیا ہے، اشرافیہ کی کرپشن یا اشرافیہ کی نا اہلی۔ سوا آٹھ ہزار افراد نے ووٹنگ میں حصہ لیا اور 60 فیصد نے یہ رائے ظاہر کی کہ کرپشن زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔

عاطف میاں نے اس کے بعد اپنی مندرجہ ذیل رائے ظاہر کی۔
میں اس پول میں اقلیتی موقف کی حمایت کروں گا اور یہ بحث کروں گا کہ ترقی کے لئے کرپشن سے بڑی رکاوٹ نا اہلی ہے (ظاہر ہے کہ آئیڈیلی ہم دونوں سے پرہیز کرنا چاہیں گے)۔

آئیں چین اور سعودی عرب کا تقابل کریں۔ دونوں مرکزیت پسند پاور سٹرکچر ہیں اور ٹاپ پر بہت زیادہ کرپشن ہے۔ لیکن چینی نظام ایک خاص جہت میں مختلف ہے۔ وہ پاور سٹرکچر کے اندر رہتے ہوئے مقابلے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور انہیں ترجیح دیتا ہے جو زیادہ پیداوار دکھا سکیں (لوکل گورنمنٹ کے ٹارگٹ وغیرہ کے بارے میں سوچیں)۔

ایک سینس میں چینی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ایک بڑھتا ہوا کیک سب کو زیادہ حصہ وصول کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، اور یوں مرکزی پاور کو زیادہ دیر تک قائم رہنے کے قابل بناتا ہے۔

سعودی عرب ایسا کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کوئی حرکت نہیں ہوتی اور صرف بہت نمایاں نا اہل پالیسیاں جیسے سعودینائزیشن ہی دکھائی دیتی ہیں۔

کسی سسٹم کی حتمی کامیابی کا انحصار ایک کلیدی سوال پر ہوتا ہے: کتنے موثر طریقے سے وہ اختیار کو سب سے زیادہ اہل کو سونپتا ہے۔

یہ بات درست ہے کہ کرپشن اختیار کی ایسی منتقلی کے راستے میں آ سکتی ہے۔ لیکن ایک کرپٹ سسٹم بھی نتائج دے سکتا ہے اگر وہ ایک ایسا راستہ تلاش کر لے جو اہل کو اختیار سونپ سکے۔
پڑھاکو قسم کے افراد کوس تھیورم (Coase Theorem) دیکھ لیں۔

عاطف میاں کی ان ٹویٹس کے نیچے مختلف افراد نے اپنے تبصرے کیے۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سیل کے متحرک رکن ڈاکٹر فرحان ورک نے لکھا

”جو دوست یہ ٹویٹس پڑھ رہے ہیں اور سمجھ نہیں آ رہی ان کو بتاتا چلوں کہ موصوف فرما رہے ہیں کہ ’کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے کے نعرہ پر عمل پیرا ہونے والے لوگ بہت کامیاب ہیں‘۔
ان جناب کو ہم اپنی معیشت سونپنے والے تھے۔ “

سلمان عباسی نے تبصرہ کیا کہ ”آپ کے تجزیے اور دران آجم اوغلو کے ’قومیں کیوں فیل ہوتی ہیں‘ کے درمیان مماثلتیں اور اختلافات دلچسپ ہیں۔ آزاد، اہل ادارے، خواہ وہ کرپٹ ہی کیوں نہ ہوں، کامیابی لا سکتے ہیں اگر ان میں ڈیلیور کرنے کا مقابلہ وجود رکھتا ہو، اور اگر عام افراد کو محنت کرنے کا فائدہ دکھائی دیتا ہو۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).