وکِی لیکس کے شریک بانی جولین اسانج لندن سے گرفتار


جولین اسانج

وِکی لیکس ویب سائٹ کے شریک بانی جولین اسانج کو لندن میں واقع ایکواڈور کے سفارت خانے سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔

جولین اسانج نے سات سال قبل جنسی زیادتی کا کیس جو بعد میں واپس لے لیا گیا تھا میں سویڈن کے حوالے کیے جانے سے بچنے کے لیے سفارت خانے میں پناہ لی تھی۔

لندن پولیس کے مطابق انھیں کورٹ میں پیش نہ ہونے اور امریکہ کے حوالے کیے جانے کی درخواست پر عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا۔

جولین اسانچ کو اب امریکی حکومت کی سب سے بڑی خفیہ دستاویزات منظر عام پر لانے کا مقدمے کا سامنا ہے۔

برطانیہ ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس کی جانب سے عائد کیے جانے والے الزامات کہ اسانچ نے امریکہ کے سابق انٹیلیجینس اہلکار چیلسی مینیگ کے ساتھ مل کر کلاسفیڈ ڈیٹا بیس کو ڈاؤن لوڈ کرنے کی سازش کی اسانچ کی حوالگی کے حوالے سے فیصلہ کرے گا۔

اگر اسانچ کو کمپیوٹر میں مداخلت کرنے کی سازش کرنے کے الزامات کے تحت مجرم قرار دیا گیا تو انھیں امریکہ کی جیل میں پانچ سال کی سزا کا سامنا کرنا ہو گا۔

واضح رہے کہ جولین اسانج کی ویب سائٹس وکی لیکس کی جانب سے بعض خفیہ معلومات شائع کرنے کے سلسلے میں وہ امریکہ کو مطلوب ہیں۔

ان کی وکیل جینیفر رابنسن کا کہنا ہے کہ وہ حوالگی کی درخواست پر مقدمہ لڑیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

جولین اسانج کون ہیں؟

سویڈن نے اسانج کے خلاف ریپ کی تحقیقات ختم کر دیں

لیکن وِکی لیکس کی جانب سے کی گئی ٹویٹ میں کہا گیا کہ ایکواڈور کی طرف سے اسانج کی سیاسی پناہ ختم کرنا اور مزید سیاسی پناہ نہ دینے کا فیصلہ ’بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی‘ ہے۔

https://twitter.com/wikileaks/status/1116283186860953600

برطانیہ کے سیکریٹری برائے داخلہ امور ساجد جاوید نے ٹویٹ کی ’میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ جولین اسانج پولیس کی تحویل میں ہیں اور برطانیہ میں عدالت کا سامنا کریں گے۔‘

جولین اسانج نے سنہ 2006 میں خفیہ دستاویزات اور تصاویر کے حصول اور ان کی اشاعت کرنے کے لیے وِکی لیکس نامی ویب سائٹ کی بنیاد رکھی۔ ادارہ چار سال بعد اس وقت شہ سرخیوں میں آیا جب عراق میں ایک ہیلی کاپٹر کی مدد سے امریکی فوجیوں کی عام شہریوں کو قتل کرنے کی ویڈیو منظرعام پر آئی۔

سنہ 2010 میں سابق امریکی انٹیلیجنس تـجزیہ کار چیلسی میننگ کو 000 ,700 خفیہ دستاویزات، ویڈیوز اور سفارتی مراسلے وکِی لیکس کو دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

چیلسی کا کہنا تھا کہ انھوں نے ایسا صرف غیر ملکی پالیسی سے متعلق مباحثوں کو فروغ دینے کے لیے کیا مگر امریکی حکام کا کہنا تھا کہ راز افشا کر کے زندگیاں خطرے میں ڈالی گئیں۔

اسانج پر ریپ کرنے کا الزام عائد کیا گیا جسے انھوں نے مسترد کیا اور بعد میں کیس واپس لے لیا گیا۔ سویڈن کے حوالے کیے جانے سے بچنے کے لیے انھوں نے سیاسی پناہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ 47 سالہ اسانج سنہ 2012 سے لندن میں واقع اکواڈور کے سفارت خانے میں رہ رہے ہیں۔

لیکن ان پر 2012 میں عدالت میں نہ پیش ہونے کے جرم کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وِکی لیکس ویب سائٹ پر خفیہ امریکی راز شائع کرنے کی وجہ سے ان کو امریکہ ک حوالے کیا جا سکتا ہے۔

سکاٹ لینڈ یارڈ کا کہنا تھا کہ ایکواڈور حکومت کی جانب سے پناہ نہ دینے کے فیصلے کے بعد سفیر کی طرف سے انھیں سفارت خانے بلوایا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ ویسٹ منسٹر کے مجسٹریٹ کی عدالت میں ’جلد از جلد‘ پیش ہونے سے قبل اسانج سنٹرل لندن پولیس سٹیشن کی تحویل میں رہیں گے۔

ایکواڈور کا پیمانہ لبریز

ایکواڈور کے صدر ٹورینو کا کہنا تھا کہ دوسری ریاستوں کے داخلہ امور میں مداخلت کے بعد ملک کے لیے اسانج کا رویہ اپنی حد کو پہنچ چکا تھا۔

صدر ٹورینو کا مزید کہنا تھا ’سب سے تازہ ترین واقعہ جنوری 2019 میں اس وقت پیش آیا جب وکِی لیکس نے ویٹیکن کے دستاویزات لیک کر دیے۔‘

’اس اور دیگر اشاعت کے بعد دنیا کا شک یقین میں بدل گیا کہ اسانج ابھی بھی وکِی لیکس سے منسلک ہیں اور اس وجہ سے دیگر ریاستوں کے داخلہ امور میں مداخلت کرنے میں بھی شریک ہیں۔‘

ان کی جانب سے اسانج پر سفارت خانے کے سکیورٹی کیمروں کو بند کرنے، سکیورٹی فائلوں تک رسائی حاصل کرنے اور محافظوں سے مڈھ بھیڑ کرنے کے الزامات بھی لگائے گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp