پاکستان سزائے موت دینے والے پہلے پانچ ممالک میں شامل نہیں: ایمنسٹی انٹرنیشنل


ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سزائے موت دینے والے ممالک کی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق پاکستان دو سال بعد سب سے زیادہ سزائے موت دینے والے دنیا کے پہلے پانچ ممالک میں شامل نہیں ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق سال 2018 میں 20 ممالک میں 690 افراد کو سزائے موت دی گئی جو کہ سال 2017 کے مقابلے میں 31 فیصد کم ہے۔ سال 2017 میں کل 993 افراد کو سزائے موت دی گئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق یہ ایک دہائی میں سزائے موت کی کم ترین تعداد ہے۔

رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ سزائے موت دینے والے ممالک میں چین، ایران، سعودی عرب،ویت نام اور عراق شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پھندا لگا کر سزائے موت دینے کے خلاف درخواست خارج

پھانسی کے ذریعے سزائے موت کے خلاف مقدمے میں فیصلہ محفوظ

دنیا بھر میں سزائے موت میں ’37 فیصد کمی’

سزائے موت کے خلاف لاہور میں احتجاجی مظاہرہ

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق چین دنیا میں سب سے زیادہ سزائے موت دینے والا ملک ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین میں سزائے موت کے درست اعداد و شمار کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ یہ ڈیٹا سرکاری سطح پر ریاستی راز قرار دیا جاتا ہے تاہم یہ گمان کیا گیا ہے کہ چین میں ہزاروں افراد کو موت کی سزا دی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق چین کے علاوہ عالمی سطح پر دی جانے والی موت کی سزا کا 78 فیصد صرف ایران، سعودی عرب، ویت نام اور عراق پر مشتمل ہے۔

سال 2018 میں ایران میں 253 افراد کو موت کی سزا دی گئی جبکہ سال 2017 میں یہ تعداد 507 تھی۔

رپورٹ کے مطابق ایران میں گذشتہ سال کے دوران سزائے موت دینے کے واقعات میں 50 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

سعودی عرب میں تقریباً 149 افراد کو موت کی سزا دی گئی جبکہ ویت نام کے حکام کی جانب سے ظاہر کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سال 2018 میں کل 85 افراد کو موت کی سزا دی گئی۔

عراق میں بھی سال 2018 میں 52 افراد کو موت کی سزا دی گئی جو سال 2017 میں 125 افراد کو دی جانے والی سزا سے کم ہے۔

رپورٹ میں پاکستان کے متعلق اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ سال 2018 میں صرف 14 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا جو سال 2017 میں 60 افراد کو دی جانے والی سزا سے کم ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں موت کی سزا دینے میں 77 فیصد کمی آئی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مرتب کردہ فہرست کے مطابق پاکستان کا نمبر نواں ہے۔

پاکستان سے پہلے مصر، امریکا اور جاپان کا نمبر آتا ہے جبکہ سنگاپور دسویں نمبر ہر ہے جہاں 13 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

صومالیہ نے بھی سال 2018 میں صرف 13 افراد کو موت کی سزا دی جو کہ سال 2017 میں دی جانے والی سزاؤں کا نصف ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں بحرین، بنگلہ دیش، اردن، کویت، ملائشیا، فلسطین اور متحدہ عرب امارت سے سزائے موت کی کوئی اطلاع سامنے نہیں دی آئی جبکہ سال 2017 میں ان ممالک نے مجرموں کو سزائے موت دیں تھیں۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ برکینو فاسو نے گذشتہ سال جون میں اپنے نئے قوانین میں سزائے موت کو ختم کر دیا تھا جبکہ گامبیا اور ملائشیا نے گذشتہ سال سزائے موت دینے پر سرکاری طور پر عارضی تعطل عائد کیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق امریکی ریاست واشنگٹن نے بھی گذشتہ برس اکتوبر میں سزائے موت کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق سال 2018 کے اختتام پر 106 ممالک نے کسی بھی جرم پر قانونی طور پر سزائے موت دینے کا سلسلے ختم کر دیا جبکہ 142 ممالک ایسے ہیں جہاں سزائے موت نہ دینے کا یا قانون ہے یا عملی طور پر سزائے موت نہیں دی جاتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ایران میں سات ایسے افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے جن کی عمر 18 سال سے کم تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں موت کی سزا دینے کے رائج طریقۂ کار میں سر قلم کرنا، بجلی کے جھٹکے سے موت کے گھاٹ اتارنا، پھانسی پر لٹکانا، زہریلا ٹیکہ لگانا یا گولی مارنا شامل ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 29 ممالک میں موت کی سزا کو معاف یا تبدیل کیا گیا ہے ان میں پاکستان، افغانستان، انڈیا، بنگلا دیش، ایران، کویت اور امریکہ سمیت دیگر ممالک شامل ہیں۔

سزائے موت

پاکستان میں سزائے موت دینے میں کمی کیوں؟

پاکستان میں سزائے موت پانے والے افراد کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم جسٹس پیس پراجیکٹ کے سینئیر کمیونیکیشن آفیسر محمد شعیب نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ سنہ 2014 دسمبر کے بعد سے پہلی مرتبہ پاکستان کا نام ان پہلے پانچ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہے جو سب سے زیادہ سزائے موت پر عملدرآمد کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمد کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے اس میں بہت سے عوامل شامل ہیں جو اس کی وجہ بنے ہیں۔ ان میں سب سے پہلی چیز ہمیں دکھائی دینے والا وہ عالمی رحجان ہے جس میں دنیا بھر میں سزائے موت دینے کے واقعات میں کمی آئی ہے جیسا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس کی دوسری وجہ پاکستان کے انسانی حقوق کے حوالے سے ہونے والے بین الاقوامی جائزے ہیں جن کا اثر بھی اس میں نظر آتا ہے اور وہ عالمی معاہدے ہیں جن کا پاکستان پابند ہیں جیسا کہ یورپی یونین کے تحت جی ایس پی پلس کا معاہدہ اور کچھ دیگر عالمی معاہدے جن کے ہم رکن ہیں ان کا بھی عمل دخل اس میں نظر آتا ہے۔

محمد شعیب کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ داخلی عوامل جن میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے کی جانے والی جہدوجہد اور غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے سزائے موت جیسی غیر انسانی سزا کے خلاف اٹھائی جانے والی آواز کا بھی عمل دخل نظر آ رہا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ دنیا بھر اور پاکستان میں بھی لوگوں کو انصاف فراہم کرنے والے ذمہ دار اسٹیک ہولڈرز بھی اس حوالے سے یہ محسوس کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ سزائے موت دہشت گردی یا جرائم کی روک تھام کا درست جواب نہیں ہے۔ تاہم ملک میں قانون کے نظام میں اصلاح کے بغیر صرف سزائے موت پر عملدرآمد میں کمی کافی نہیں ہے۔

سزائے موت

پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمد میں اضافہ کیوں ہوا تھا؟

جب محمد شعیب سے پوچھا گیا کہ پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمد میں اضافہ کیوں ہوا تھا تو انھوں نے بتایا کہ اس کی ایک بڑی وجہ تو ان افراد کی سزائے موت پر عملدرآمد ہونا تھا جن کو پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں سنہ 2008 سے سزائے موت پر عملدرآمد پر لگنے والی عارضی پابندی کے دوران سزا سنائی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف دہشت گردی کے واقعات کا ردعمل نہیں تھا بلکہ سزائے موت کے مجرموں میں کچھ ایسے بھی شامل تھے جو دہشت گردی کے جرائم میں ملوث نہیں تھے۔ ان کی تنظیم کی جانب سے کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سزائے موت پر عملدرآمد کو ملک میں سیاسی حربے کے طور پر بھی استعمال کیا گیا اور دہشت گردی کے بڑے واقعات کے بعد عوامی غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے سزائے موت پر عملدر آمد میں اضافہ کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp