ایوب خان کا دور پاکستان میں ترقی کی علامت یا معاشی ناہمواری کی نشانی؟


ایوب خان

وزیر اعظم عمران خان کئی بار اپنے انٹریوز میں ایوب دور میں ہونے والی اقتصادی ترقی کی تعریف کر چکے ہیں

معاشی مشکلات میں گھرے ہوئے پاکستان میں آج کل پاکستان کے پہلے فوجی حکمران جنرل محمد ایوب کے دور کو بہت یاد کیا جاتا ہے۔

سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کے بعد موجودہ وزیر اعظم عمران خان کئی بار اپنے انٹریوز میں ایوب دور میں ہونے والی اقتصادی ترقی کی تعریف کرتے ہوئے کہ چکے ہیں کہ اگر ایوب خان کے دور سے شروع ہونے والا ترقی کا سفر جاری رہتا تو آج پاکستان ترقی یافتہ ممالک میں نمایاں مقام حاصل کر چکا ہوتا۔

ہم نے ایوب خان کے دور کو جاننے کےلیے معاشی ماہرین سے کچھ سوالوں کے جواب مانگے:

  • کیا ایوب خان کا دور اقتصادی طور پر پاکستان کا سنہری دور تھا؟
  • ایوب خان کے دور کے اکنامک ماڈل کو موجودہ پاکستان میں اپنایا جا سکتا ہے؟
  • اور کیا ایوب دور کو مستقبل کے لیے ایک مثال کے طور پر پیش کیا جانا درست ہے؟

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی تاریخ کی ’تاریک ترین‘ رات

’ڈکٹیٹروں نے ملک ٹھیک کیا، سویلینز نے بیڑہ غرق کر دیا‘

آمر برے لوگ نہیں ہوتے

پاکستانی ٹیکسٹائل

ایوب خان کے دور میں جو صنعتی ترقی ہوئی وہ پاکستان انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن کے ذریعے ہوئی: ماہر معیشت

ڈاکٹر قیصر بنگالی، ماہر معیشت

کیا ایوب خان کا دور اقتصادی طور پر پاکستان کا سنہری دور تھا؟

’ایوب خان کا دور ایک لحاظ سےاچھا تھا کہ اس دور میں بہت تیزی سے اور بڑے پیمانے پر معاشی اثاثے بنے جس سے پیدوار میں بہت اضافہ ہوا۔ لیکن ترقی کرنے کے اس ماڈل نے علاقوں اور لوگوں میں آمدنی کی ناہمواری پیدا کی۔‘

’ایوب خان کے دس سالہ دور میں صنعتی مزدور کی اجرت دس سال کے افراط زر کو منہا کر کے دیکھیں تو وہ وہی تھی جو دس پہلے تھی۔‘

مشرقی پاکستان کا پاکستان سے علیحدہ ہونے کا تعلق براہ راست ایوب خان کی پالیسیوں کا نتیجہ تھا۔‘

ایوب خان کے دور کے اکنامک ماڈل کو موجودہ پاکستان میں اپنایا جا سکتا ہے؟

’ایوب خان کے دور میں جو صنعتی ترقی ہوئی وہ پاکستان انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن(پی آئی ڈی سی) نےکی۔ یہ ایک مفروضہ بنا لیا گیا ہے کہ پاکستان میں جو ترقی ہوئی وہ نجی شعبے نے کی ہے۔ یہ تاریخی طور پر غلط ہے۔ پاکستان میں صنعتوں کو جو جال بچھایا گیا وہ پی آئی ڈی سی نےبچھایا جو ایک ریاستی ادارہ تھا۔‘

’ریاست کارخانے لگاتی تھی اور اسے کمرشل بنیادوں پر چلا کر اسے پرائیوٹ سیکٹر کے حوالے کر دیا جاتا تھا۔ یہ ماڈل ایوب خان کے دور کا نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے سے چل رہا تھا۔‘

’میں سمجھتا ہوں اگر ہمیں کوئی ماڈل چاہیے تو ہمیں کچھ ردوبدل کے ساتھ پی آئی ڈی سی کا ماڈل کو برقرار رکھنا چاہیے تاکہ صنعت کاری کا جو سلسلہ رکا ہے وہ پھر سے چلے۔‘

ایوب دور کو مستقبل کے لیے ایک مثال کے طور پر پیش کیا جانا درست ہے؟

’پاکستان کی تاریخ میں دو ادوار ایسے آئے ہیں جب بہت تیزی سے اثاثے بنے ہیں۔ ایک ایوب خان کا دور تھا اور دوسرا ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں سرکاری شعبے میں صنعتی ادارے بنائے گئے۔ اگر ایوب خان کے ماڈل کے ساتھ ناہمواری بھی آنی ہے تو یہ ماڈل نہ ہی آئےتو اچھا ہے۔‘

عمران خان

لاہور کے انتہائی مراعات یافتہ طبقوں میں پرورش پانے والے عمران خان پاکستان میں ترقی کو ایوب خان کے دور سے منسلک کر دیتے ہیں: محمد ضیاالدین

عرفان مفتی، ماہر معیشت

کیا ایوب خان کا دور اقتصادی طور پر پاکستان کا سنہری دور تھا؟

’ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کے چند حصوں میں ترقی ہوئی اس کے اعداد و شمار بھی موجود ہیں لیکن جو علاقائی ناہمواری تھی وہ بہت بڑھی تھی۔ لیکن جب آپ مرکزیت کے فلسفے پر آگے بڑھتے ہیں تو وہ چند علاقے جو مرکز کے قریب ہوتے ہیں یا جن کی مرکز میں نمائندگی زیادہ ہوتی ہے وہاں ترقی تو بڑھتی ہے لیکن محروم خطے اس سے بہت زیادہ دور ہو جاتے ہیں۔ اسی دور میں بہت سارے صوبائی معاملات اٹھے اور جو اتنے بڑھے کہ ملک کے دو ٹکڑے ہو گئے۔‘

’میرے خیال میں مرکزیت کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ایک خاص حد تو ترقی کرنا ممکن ہے لیکن پاکستان جیسے ایک وفاقی ملک میں مرکزیت کی سوچ مسائل کا سبب بن جاتی ہے۔ میرے خیال میں یہ مفروضہ پوری طرح درست نہیں ہے۔‘

ایوب خان کے دور کے اکنامک ماڈل کو موجودہ پاکستان میں اپنایا جا سکتا ہے؟

’یقنیناً نہیں اپنایا جا سکتا۔ مرکز نے چند خاندانوں کو مضبوط کیا جنہوں نے اس دولت کو ملک کے دوسرے طبقوں کے ہاتھ میں جانے سے روکا۔ جو دولت صنعتی ترقی سے حاصل کی گئی وہ باہر کے ملکوں میں گئی۔ جب آپ ایک مخصوص طبقے کو مضبوط کرتے ہیں تو اس سے دولت نیچے سفر نہیں کرتی۔‘

’ایوب خان کے دور میں کہا گیا کہ ہم اس دولت کو نیچے کے طبقوں تک لے کر آئیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور بہت ساری دولت ملک سے باہر چلی گئی۔ پھر ایک وقت وہ آیا جب ہمیں صنعتوں کو قومیانہ پڑا کیونکہ لوگوں کے پاس روزگار نہیں تھا۔ میرے خیال میں ترقی کی یہ کہانی ایک افسانوی کہانی ہے۔‘

اکبر بگٹی

ایوب دور کو مستقبل کے لیے ایک مثال کے طور پر پیش کیا جانا درست ہے؟

’نہیں میرے خیال میں یہ درست نہیں ہے۔ میں مثال دیتا ہوں کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بلوچستان اور سندھ کےایک بڑے حصے کی پسماندگی ہے۔

’ہم جتنے مرکزیت کی طرف جائیں گے تو وہاں پسماندگی پھیلے گی۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم اس غلطی کو ایک بار پھر دہرانے جا رہے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ اس غلطی کے اثرات زیادہ شدید ہوں گے کیونکہ صوبوں میں پہلے ہی محرومی کا احساس بڑھا ہوا ہے۔ اگر ہم مرکزیت پر زور دیں گے تو اس کے خطرناک نتائج نکلیں گے اور مجھےلگتا ہے کہ اس سےفیڈریشن کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

ایم ضیا الدین ، معاشی امور پر گہری نظر رکھنےوالے متماز صحافی

کیا ایوب خان کا دور اقتصادی طور پر پاکستان کا سنہری دور تھا؟

’ایوب خان کے دور سے ہی ہمیں بیرونی قرضوں پر انحصار کرنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ امریکہ اور یورپ کے ساتھ سینٹو اور سیٹو معاہدوں کے بعد ہمیں مفت میں اسلحہ ملا کرتا تھا۔ انھوں نے ہمیں کنٹونمنٹ بھی بنا کر دیے۔ اس وجہ سے ہمارے ڈیفنس بجٹ پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا۔ اسی طرح ہمیں امریکہ سے تقریباً مفت گیہوں آتا تھا جسے ہم مارکیٹ میں بیچ کر سویلین بجٹ کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ہماری عادتیں اسی وجہ سے خراب ہوگئی ہیں۔‘

’ایوب خان کو اپنی حکومت کو برقرار رکھنےکے لیے جاگیرداروں اور کاروباری لوگوں کی حمایت چاہیے تھے۔ اسی زمانے میں کرپشن بھی بہت شروع ہو گئی۔ ان کے صاحبزادے گوہر ایوب گندھارا انڈسٹری کے مالک بن گئے۔ پھر انتخابات میں فاطمہ جناح کو جس طریقے سے ہرایا گیا وہ سب کو معلوم ہے۔ جو موجودہ دور کی خرابیاں ہیں یہ سب ایوب خان کے دورسےشروع ہو گئی تھیں۔‘

’مشرقی اور مغربی پاکستان میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں ۔ ہم ان کا پٹسن بیچ کر مغربی پاکستان پر خرچ کرتے تھے جس کی وجہ مشرقی پاکستان میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اور پھر ان کے مطالبے بھی بڑھتے چلے گئے۔پاکستان سے علیحدگی کے جراثیم ایوب خان کےدور میں ہی پیدا ہوئےتھے۔‘

’پی آئی ڈی سی صنعتیں قائم کرکے اپنے دوستوں میں اونے پونے داموں میں فروخت کر دیتی تھی جس سے پورے ملک کی دولت بائیس خاندانوں کے ہاتھ میں جمع ہو گئی ہے جس سے عدم مساوات بڑھی۔‘

کیا ایوب خان کے ماڈل کو اب اپنایا جا سکتا ہے؟

’نہیں ہرگز نہیں۔ ساری دنیا میں اسی ماڈل پر ہی تو تنقید ہو رہی ہے۔ ابھی حال ہی تھامس پکٹی نے اپنی کتاب ’کیپٹل‘ میں سرمایہ داری نظام کا ایک سو سالہ اعداد و شمار کا جائزہ لے کر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس سے دنیا میں معاشی ناہمواری بڑھی ہے اور دنیا کی ستر، اسی فیصد دولت صرف باسٹھ لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد درمیانی طبقے کو جو فاہدہ ہوا تھا وہ تھیچر اور رونلڈ ریگن کے دور میں ختم ہو گیا ہے۔ وہ تمام کام جو پہلے ریاست کی ذمہ داری ہوتی تھی وہ پرائیوٹ سیکٹر کو دے دیئے گئے۔ اتنی دولت چند ہاتھوں میں مرکوز ہونے کے بعد دولت مندوں نے بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کو خرید لیا ہے۔

جنرل مشرف

سابق فوجی حکمران پرویز مشرف ایوب خان کے دور میں ہونے والی ترقی کے بہت معترف تھے

کیا ایوب خان کے دور کو مثال کے طور پر پیش کیا جانا درست ہے؟

’دراصل پاکستان کی فوج ایوب خان کے دور کو بہت اچھا سمجھتی ہے ۔ میں نے پہلی دفعہ جنرل پرویز مشرف کے منہ سے ایوب خان کے دور کی تعریف سنی۔ پھر عمران خان کی تاریخ بھی اپنی مرضی کی ہے۔ عمران خان کا بچپن اور جوانی لاہور کے بہت ہی امیر علاقوں میں گذرا ہے۔ عمران خان بغیر تاریخ پڑھے پاکستان میں ترقی کو ایوب خان کے دور سے منسلک کر دیتے ہیں۔‘

’اسی طرح پاکستان کی فوج کی ادارہ جاتی یاداشت بھی اپنی ضرورت کے مطابق ہے۔ وہ صرف قرار داد مقاصد کو یاد رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ محمد علی جناح کی گیارہ اگست 1947کی تقریر کو بھول جانا چاہتے ہیں کیونکہ اس سے ان کے اپنے مفادات پر زد پڑتی ہے لیکن قرار مقاصد میں ان کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے اسی لیے ضیاالحق نے قرار داد مقاصد کو آئین کا حصہ بنا دیا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp