بلوچستان دھماکہ – اک غیرمقبول نقطہ نظر


کوئٹہ میں آج صبح بم دھماکے میں 16 سے زائد افراد کے شہید ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اور کیا ہی شرم کا مقام ہے کہ میرے ہزارہ بھائی، پولیس کے پہرے میں اپنے علاقوں سے اپنی ضروریات کے لیے سبزی، جی ہاں، پولیس کے پہرے میں سبزی لینے آ رہے تھے، جب آلوؤں کی اک بوری میں چھپائے ہوئے بم کو، شاید ریموٹ کنٹرول سے اڑا دیا گیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے شہریوں کو امن و امان سے زندہ رہنے کی ضمانت اور موقع فراہم کرنا، ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ اور ہر ریاست یہ ذمہ داری، قانون لاگو کرنے والے اداروں کے ذریعے ادا کرتی ہے۔ بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے، اکبربگتی صاحب کی شہادت کے بعد سے مسلسل گولیوں اور دھماکوں کی زد میں ہیں۔ اس حماقت میں پہل ریاست نے کی جب مشرف صاحب، جو آج کل دبئی میں عافیت کی زندگی بسر کر رہے ہیں، نے اک سیاسی معاملہ کو ذاتیات کے دائرہ میں گھسیٹ لے جا کر اپنے تئیں “حل” کر لیا۔

بگتی صاحب کی شہادت کے بعد سے بلوچ مسلح مزاحمت کا اک سلسلہ شروع ہوا، جس نے سب سے پہلے ابتدا وہاں پنجابیوں، سرائیکیوں، سندھیوں اور دیگران کے خلاف قتل و غارت سے کی۔ آغاز ہمیشہ مجبور اور بےچاروں سے ہی کیا جاتا ہے۔

2010 تک بلوچ اپنی صورتحال کے حوالے سے ریاست کے بارے میں اپنا بیانیہ اپنی مزاحمت اور سیاست سے استوار کر چکے تھے اور شاید یہی وہ وقت تھا کہ جہاں مزاحمت کو سیاست کے تابع کر دیا جاتا۔ ایسا مگر نہ ہوا۔ 2010 کے بعد، مجھے تو بلوچ اور طالبان کی دہشت گردی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا اور پچھلے چند مہینوں میں بالخصوص اللہ نذر بلوچ کی دہشت گردی نے طالبان کی دہشت گردی کے ساتھ ہاتھ بھی ملائے ہیں اور فدائی حملے بھی کیے۔

ہر قسم کا تشدد، اپنے اپنے مقامی معاشروں میں گورننس کے بھیانک خلا تخلیق کرتا ہے اور یہ خلا پھر ہر قسم کے پرتشدد عناصر سے بھرے جاتے ہیں۔ اس خلا کو لڑتے لڑتے، قانون نافذ کرنے والے ریاستی اداروں میں بھی تھکن اور بیزاری کے ایلیمنٹس دیکھے جا سکتے ہیں۔ اور اسی تھکن کے تحت، ان سے کبھی کبھار شہریوں کے حقوق کے خلاف زیادتیاں بھی ہو جاتی ہیں۔

آج قتل ہو جانے والے 16 بےگناہوں کا خون پہلے ریاست کی بگتی شہید کے معاملہ میں بےحکمتی کرنے والے ہاتھوں پر ہے، اور اس کے بعد یہ ذمہ داری دہشت گردی کرنے والے بلوچوں کے ہاتھوں پر ہے۔ یہ اک غیرمقبول نقطہ نظر ہے، مگر بلوچستان کہ جہاں گورننس کے معاملات کے حوالے سے خلا پہلے ہی وسیع تھا، اسے وسیع تر کرنے میں 2010 کے بعد کی بلوچ دہشت گردی کا اک بڑا ہاتھ ہے۔

ریاست بہت بڑی ہوتی ہے، مگر یہ ہر محاذ پر مسلسل نہیں لڑ سکتی۔ اس حقیقت کا ادراک سب سے پہلے ریاست کو ہی کرنا ہے اور اس کے بعد، بالخصوص بلوچوں کو۔ اگر ایک سمت سے حملوں کے حوالے سے ریاست میں کچھ بےفکری آتی ہے تو اس کی مشینری کو بھی دوسری جانب زیادہ فوکس کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ چومکھی نہیں، بلکہ اک ہشت مُکھی لڑائی میں کہیں کامیابی، تو کہیں ناکامی کا سلسلہ چلتا رہے گا۔

آزادی کا جھوٹا خواب بھی بہت پرانا اور متروک ہو چلا اور جدید سیاسی ریاست کی جغرافیائی حدود کا احترام اب بین الاقوامی قوانین کا حصہ ہے۔ چند بلوچوں کی مسلح دہشت گردی کو سیاست کے تابع کرنے کا وقت پہلے ہی دس برس قبل گزر چکا ہے اور یہ وقت ہے کہ بلوچ سوچیں کہ انہیں تشدد سے کیا مل رہا ہے؟

احباب کی رومانویت بھلے جو مرضی ہے کہتی رہے، مگر کوئی ریاست تشدد کا جواب مزید تشدد سے دینے کے اپنے حق سے کبھی دستبردار نہیں ہوتی۔ بگتی صاحب اور ان سے پہلے کے بلوچ بزرگوں کی توہین کے معاملات بھلے لوک داستانوں اور گیتوں کا حصہ بنے رہیں، ان کے حوالہ جات مسلسل لڑتی ہوئی ریاست و معاشرت میں کوئی معجزات برپا نہیں کر سکتے۔

بلوچستان میں امن کے مسئلہ کا حل، صرف انتظامی نہیں۔ یہ فکری، عقلی، سیاسی اور معاشرتی بنیادوں پر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ فکر، عقل، سیاست اور معاشرت، بندوقوں کے سائے میں سوئی رہتی ہیں۔

یہ مختصر مضمون اک پیچیدہ اور کئی زاویے رکھنے والے اک مسئلہ کا محض اک، مگر میرے خیال میں بنیادی پہلو سامنے لانے کی اک پرخلوص کوشش ہے۔ سادہ بات یہ ہے کہ آپ اگر میرے دشمن کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں، تو مجھے اپنے دشمن پر وار کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہی کلیہ ہر ریاست میں لاگو ہے۔ یہی کلیہ بلوچستان میں بھی لاگو ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).