بندہ عشق شدی۔ جنرل راحیل شریف


بہادر اور نرم خو جنرل راحیل شریف کا نام آتے ہی ہر پاکستانی کے دل میں ان کے لئے صرف محبت کے جذبات ہی بیدار ہوتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف ہر پاکستانی کا فخر ہیں۔ اتنی زیادہ پذیرائی ہمارے وطن میں پہلے کبھی کسی آرمی چیف کے حصے میں نہیں آئی جتنی جنرل راحیل شریف کو ملی۔ بطور آرمی چیف جنرل صاحب کی شخصیت پہ شاید سب سے زیادہ لکھا گیا۔ انہیں دو سینئر جرنیلوں، لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم جنجوعہ اور لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود پر فوقیت دی گئی۔ سینئر ترین جنرل لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم جنجوعہ نے اسی وجہ سے فوج سے استعفی دیا۔ جنرل راحیل شریف کی اعلیٰ خاندانی روایات کا تسلسل ان کے عالی نسب ہونے کی گواہی دیتا ہے۔

وجاہت مسعود نے کیا خوب لکھا، ”عزیزان گرامی، کیا شجرہ محض پرکھوں کی ایک فہرست ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو ہم میں سے ایسا کون ہے جو تین کے بعد چوتھی پیڑھی کے ناموں سے کوئی ذاتی تعلق رکھتا ہو۔ آڑی ترچھی لکیروں کے بیچ لکھے یہ نام تو بذات خود پرکھوں کی بیان کردہ روایت ہیں۔ اصل قصہ اقدار کے تسلسل کا ہے۔ شجرہ ان حدود کی ضمانت دیتا ہے جن کی نسل در نسل پاسداری کی گئی۔ “

تو جنرل صاحب کے خاندان نے نسل در نسل ان روایات کی پاسداری اپنی جانیں اس ملک و قوم پہ قربان کر کے کی۔

لیکن جنرل راحیل شریف کے نسب کے حوالے سے ہمارے ہاں کنفیوژن پائی جاتی ہے۔ کچھ لوگ انھیں نشان حیدر پانے والے اس دھرتی کے عظیم سپوت میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کی نسبت سے بھٹی راجپوت لکھتے ہیں اور ریفرینس کے طور پر اردو ڈائجسٹ کے ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس انٹرویو کی کاپی آج تک ریپروڈیوس نہیں کی جا سکی۔ لہذا اس انٹرویو کی صحت پہ بہت سے سوالات ابھی باقی ہیں۔

حسن علی آگریا اپنی کتاب ”نشان حیدر“ کے صفحہ نمبر 186 پر جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف شہید (نشان حیدر) ، جنھیں سپر مین آف پاک آرمی بھی کہا جاتا ہے، کہ خاندانی پس منظر کے بارے میں لکھا۔ حسن علی آگریا لکھتے ہیں کہ ”راجپوت فیملی سے تعلق رکھنے والے شبیر شریف کا گھرانہ قبول اسلام کے وقت کشمیر میں آباد تھا بعد ازاں یہ خاندان گجرات کے قصبے کنجاہ میں آباد ہو گیا۔ عظیم صوفی بزرگ میاں محمد بخش رحمۃاللہ علیہ میجر شبیر شریف کے پردادا تھے۔

وہ مزید لکھتے ہیں کہ میاں محمد بخش نے اپنی اولاد کو حق سچ کا درس دیا اور میاں محمد بخش کی وفات کے بعد ان کے فرزند میاں غلام حسین اور پھر پوتے میاں شہاب الدین نے اس عظیم مقصد کو آگے بڑھایا۔ شبیر شریف کے والد گیارہ سال کی عمر میں یتیم ہو گئے۔ گھر کے سربراہ یعنی شبیر شریف کے دادا میاں شہاب الدین کی وفات کے بعد اس گھر کی آزمائشیں شروع ہوگی۔ ”

حسن علی آگریا کی اس ”تحقیق“ میں بہت سی غلطیاں ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میاں محمد بخش کے والد کا نام میاں شمس الدین قادری تھا اور دادا میاں دین محمد قادری تھا۔ ان کے آباؤاجداد چک بہرام ضلع گجرات سے ترک سکونت کر کے میر پور میں جا بسے۔ ان کا حسب نسب 4 پشتوں کے بعد پیرا شاہ غازی دمڑی والی سرکار سے جا ملتا ہے۔ (بعض روایات کے مطابق آپ پیرا شاہ غازی کے لے پالک تھے اور گجر فیملی سے تعلق رکھتے تھے ) نسبا آپ فاروقی ہیں سلسلہ نسب فاروق اعظم پر ختم ہوتا ہے۔ دربار کھڑی شریف کی مسند کافی مدت تک آپ کے خاندان کے زیر تصرف رہی۔ میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ بہرحال راجپوت نہیں ہیں۔

دوسری بات یہ کہ جنرل راحیل شریف اور میجر شبیر شریف کے والد گرامی کا نام محمد شریف اور دادا کا نام مہتاب الدین ہے۔ میجر شبیر شہید کے دادا مہتاب الدین 1840 میں کشمیر سے ہجرت کر کے کنجاہ (گجرات) میں آباد ہو گئے۔ انڈین آرمی کے لیفٹیننٹ جنرل بھوپندر سنگھ جو کہ انڈیا کہ لیڈنگ نیوز پیپرز میں لکھتے ہیں، نے اپنے بہت سے آرٹیکلز میں راحیل شریف کے فیملی بیک گراؤنڈ کے بارے میں بہت تفصیل سے لکھا۔ لیفٹیننٹ جنرل بھوپندر سنگھ (پی۔ وی۔ ایس۔ ایم) جزائر اندامن اور نکوبار کے لیفٹیننٹ گورنر رہے ہیں۔ وہ دو سابقہ بھارتی صدور کے۔ آر۔ نرائن اور اے۔ پی۔ جے عبدالکلام کے ملٹری سیکریٹری بھی رہے۔ اس کے علاوہ وہ مشرقی اور جنوبی افریقہ کے ملٹری، نیوی اور فضائیہ کے اتاشی بھی رہے ہیں۔ جرنل بھوپندر سنگھ آج کل چندی گڑھ میں رہتے ہیں۔

جرنل بھوپندر سنگھ نے نہ صرف جنرل راحیل شریف اور شبیر شریف شہید کو کشمیر کا جنجوعہ راجپوت لکھا۔ بلکہ اپنے آرٹیکلز میں جنجوعہ راجپوتوں کی فوجی خدمات کی جی بھر کے تعریف بھی کی۔ جنرل بھوپندر سنگھ نے لگے ہاتھوں سابقہ آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ کو بھی تحسین سے نوازا۔ پاک آرمی کی تعریف اور وہ بھی ایک سابقہ بھارتی جنرل کے منہ سے انڈینز سے برداشت نہیں ہوئی۔ اس پر انڈین ایکسپریس کے اس آن لائن پیج کے قارئین نے فیس بکی سٹائل میں بھر پور احتجاج کیا۔

جس پر ”انڈین ایکسپریس“ نے آرٹیکل تو ریموو نہیں کیا لیکن اس پر سے بھوپندر سنگھ کا نام ریموو کر دیا۔ اور آرٹیکل کو گوگل سرچ کے انڈیکس سے ریموو کر دیا گیا۔ وہ آرٹیکلز گوگل کے cached پیجز میں اب بھی محفوظ ہے۔ میری ہی ٹپ پہ کچھ دوستوں نے یہ آرٹیکل منج راجپوتوں کے فیس بک پیج پہ شیئر کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جنرل بھوپندر سنگھ راجپوت رجمنٹ کے سابقہ کمانڈر بھی ہیں۔

حال ہی میں جنرل راحیل شریف نے اپنے بیٹے کی شادی تومر (طور) راجپوتوں میں کی جو جنجوعہ راجپوتوں کی ہی ایک شاخ ہے۔ اس شادی کی تقریب میں جنرل ناصر خان جنجوعہ، سابق نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر پاکستان نے بھی شرکت کی۔

یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ کرتا چلوں کہ میجر عزیز بھٹی شہید نشان حیدر، میجر شبیر شریف شہید کے سگے ماموں نہیں تھے بلکہ ان کی والدہ کے میٹرنل کزن تھے۔

برگیڈئیر راشد ولی جنجوعہ جو مختلف نیشنل اور انٹرنیشنل انگلش اخبارات میں کالم لکھتے ہیں، انھوں نے ”امی جی“ کے آخری ایام میں سی۔ ایم۔ ایچ ملیر میں ان کا جو انٹرویو کیا وہ پڑھنے کے لائق ہے۔ جنرل راحیل شریف کی والدہ محترمہ کو ہم سب ”امی جی“ ہی کہتے ہیں۔ برگیڈئیر راشد ولی جنجوعہ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کے علاوہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے بھی ہیڈ رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ رائل ملٹری کالج کینیڈا اور کینیڈین فورسز کالج ٹورنٹو کے ایلومینی بھی ہیں۔

انھوں نے دہشت گردی پر کتاب بھی لکھی۔ وہ NUST یونیورسٹی میں PhD سکالر ہیں۔ اس کے علاوہ آپ ڈائریکٹر پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ، فوجی گروپ آف کمپنیز کے بورڈ آف گورنرز کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ برگیڈئیر راشد ولی جنجوعہ شاید اپنی مصروفیات کے باعث میری ای۔ میل کا جواب نہیں دے سکے۔ The Newsسی۔ ایم۔ ایچ ملیر والے انٹرویو کے آخر میں لکھا ہے۔

Brigadier Rashid wali Janjua is closely associated with General Raheel Sharif family۔

جہاں تک جنرل راحیل شریف کا تعلق ہے تو وہ جامی کے اس شعر کی تفسیر دکھائی دیتے ہیں۔
بندہ عشق شدی ترک نسب کن جامی
کہ دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست
(یعنی اے جامی) جب تم اسیر عشق ہوگئے تو حسب و نسب کے چکر میں نہ پڑو
کیونکہ اس راہ میں فلاں ابن فلاں کوئی چیز نہیں ہے۔

جامی کے اس شعر کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نسب کی کوئی اہمیت نہیں۔ راہ عشق کی بات کچھ اور ہے۔ ورنہ میدان کارزار ہو تو مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی اپنا نسب خود بیان کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فاطمی سادات کا نسب آج بھی محفوظ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).