مضرِ سماج سماجی میڈیا


دنیا کے تقریباًچالیس فیصد آبادی سوشل میڈیا استعمال کر رہی ہے۔ شمالی امریکہ کی چھیاسٹھ فیصد آبادی سوشل میڈیا استعمال کر کے پہلے مقام پر آتی ہے۔ اکیاسی فیصد امریکہ کی آبادی کے پاس سن 2016 میں سوشل میڈیا پروفائیل موجودتھی۔ امریکہ کی آبادی ہفتہ وار دوسو پندرہ منٹ سمارٹ فون کے ذریعے، ہفتہ وار اکستھ منٹ کمپوٹر کے ذریعے اور ہفتہ وار سنتالیس منٹ ٹیبلٹ کے ذریعے سوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔ ایک اور تحقیق کے مطابق اوسطاً ایک شخص ایک دن میں ایک سو پچاس منٹ سوشل میڈیا پر صرف کرتا ہے۔

68۔ 1، ارب صارفین ہونے کی وجہ سے فیس بک سب سے نمایاں ہے۔ فیس بک نے سب سے زیادہ صارف ہونے کے غلبہ کے ساتھ ساتھ اس صف میں ایک دو مقام اور بھی اپنے نام کیے ہوئے ہیں جیسا کہ فیس بک میسنجر دوسرے نمبر پر آتا ہے اور فیس بک کی ہی خریدی ہوئی سوشل میڈیا سائٹ انسٹاگرام تیسرے نمبر پر آتی ہے۔

ہمارے ملک میں انٹرنیٹ کی مقبولیت کا سلسلہ گزشتہ چند برس سے شروع ہوا اور آہستہ آہستہ مختلف سسٹم اس ایجاد پر منتقل ہونا شروع ہوئے لیکن یہ رفتار ابھی بھی کافی سست ہے، اس سے ہم اپنی قوت کار میں بھی کوئی خاص اضافہ نہیں کر پائے جس کے نتیجہ میں ہماری پیداواری صلاحیت دوگنا ہوسکتی تھی اور ہم ترقی کی منازل طے کرنے میں جست بھر سکتے تھے۔ ہم نے جو سسٹم انٹرنٹ پرمنتقل کیے ہیں ان کو بھی پوری طرح بروئے کارنہیں لایا جا رہا۔

دراصل ہم نا کسی قوم کی طرح سوچتے ہیں اور ناہی کسی بات پر عمل کرتے ہیں ہمارے سارے پیمانے اپنی ذات، گروہ اور خاندان کے ارد گرد گھومتے ہیں اور ہمارے سارے فیصلوں کا مظہر بس اپنی ذات ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے کسی بھی معاملے میں قومی سوچ بروئے کار نہیں آتی اور ہم وہ نتائج حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں جو بحیثیت قوم ہمیں ملنے چاہیں۔

سوشل میڈیا نئی نسل کا محبوب مشغلہ ہے دنیا کے تجربات سے عادی اذہان و قلوب ہر سامنے آنے والی چیز کا فوری اثر قبول کرتے ہیں اور اس کے اثرات پر اپنے طرز عمل کو تشکیل دیتے اور فوری رد عمل کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا اب ہماری زندگیوں میں داخل ہو چکا ہے اس کو دل سے نکال دینا ممکن نہیں جبکہ اس کو بہت سے مفید پہلوبھی موجود ہیں جنہیں استعمال کر کے معاشروں کی تشکیل نو اور ذہنوں کی آبیاری کا کام لیا جا سکتا ہو۔

وہ افراد، ادارے اور مقامات جہاں عام آدمی کی پہنچ ممکن نہ تھی وہاں اپنی آواز کو پہنچانا، اپنے پیغام کو دسترس میں لانا اور انہیں رد عمل دینے پر مجبور کرنے کا کام سوشل میڈیا سے اب نسبتاًاسان ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا نے معاشرے کو مختلف افراد اور طبقوں کو باہم مربوط رکھنے اور اپنی اطلاعات کو تبادلے کا کام احسن طریقے سے اپنے ذمہ لیا ہوا ہے۔

یہ فتنہ انگیز چیز ہمارے معاشرے میں بگاڑ کا باعث بھی بن رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر اپنی ذات کو نمایاں کرنا اور دوسروں کے ذہنوں میں اپنی شخصیت کا خاص تاثر پیدا کرنا، جس کے نتیجے میں معاشرے میں غیر محسوس اندازمیں مسابقت کی غیر صحتمند دوڑ شروع ہوگئی ہے۔ جس سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا رجحان پرورش پا رہا ہے۔ یہ رجحان حقیقی زندگی سے مطابقت کم رکھتا ہے البتہ تصوراتی پہلو سے مزین ہے۔ سوشل میڈیا نے جھوٹی اور من گھڑت اطلاعات کا ایک سمندر تخلیق کر دیا ہے جو نہایت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ سوشل میڈیاپر 70 % فیصد موادجھوٹ پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ جائزہ سنجیدہ اور تجربہ کار بڑی عمر کے لوگ تو لے لیتے ہیں کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ لیکن نا پختہ اور کم عمر ناظرین ایسا نہیں کر پاتے اور جھوٹ کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں، علاوہ ازیں ہر پوسٹ کو شیئر کرنے کے رجحان سے یہ جھوٹ ایک جگہ سے شروع ہوتا ہے اور بڑی تیزی سے دنیا بھر میں پھیل جاتا ہے۔

سوشل میڈیا نے ہماری نوجوان نسل کو اپنے سحر میں ایسا گرفتار کیا ہے کہ ہر وقت اسمارٹ فون کے ذریعے وہ کسی نہ کسی سرگرمی میں مصروف نظر آتے ہیں، وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا اور انسان ضروری کاموں کی انجام دہی سے محروم رہ جاتا ہے۔ بہت زیادہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے حقیقی سماجی سر گرمیوں میں حصہ لینے سے اجتناب کرنے لگتے ہیں، وہ سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی کو سماجی میل ملاپ کا متبال کے طور پیش کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کے وہ اپنے دوستوں اور عزیزوں سے دن بدن جسمانی طور پر دور ہوتے جاتے ہیں۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی میڈیم بذات خود برا یا اچھا نہیں ہوتا صرف اس کا استعمال اس کے نتائج مرتب کرنے کا باعث بنتے ہے۔ اگر غیر ضروری استعمال کو ترک کر کے سوشل میڈیا کا ضرورت کے مطابق ایک مخصوص وقت میں استعمال کیا جائے تو ساری قباحتوں سے بچا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کے استعمال کی تربیت فراہم کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں ورکشاپ کا اہتمام کیا جاے تو نوجوان نسل کو اس ایجاد کو مثبت استعمال کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے اور منفی سرگرمیوں سے بچا یا جا سکتا ہے جو وقت اور صلاحیت کو قومی ضیاع کا باعث بن رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).