کٹے، ککڑی، بکری اور چھابڑی کی سرکار


چینی کہاوت ہے کہ ”اگر کسی کا منصوبہ ایک سال کا ہے تو چاول کاشت کرے، اگر دس سالہ ہے تو درخت لگائے اور اگر منصوبہ سو سالہ ہے تو افراد سازی کرے“۔ افراد سازی کا کام درس گاہوں اور تعلیمی اداروں میں ممکن ہے جہاں جدید دور کی ضروریات کے مطابق علوم کی تعلیم کے ساتھ تربیت بھی فراہم کی جاتی ہو۔ ترقی یافتہ قوموں اور ممالک نے جدید تعلیم اور تعلیمی اداروں پر وقت، توجہ اور سرمایہ لگایا ان کے مقام سے دنیا آگاہ ہے۔

ہمیں آج اگر کسی نظرئے کے ترویج اور فروغ کی ضرورت ہے تو وہ جہالت کے خلاف جدید علم کی ہے جس کے بغیر شاید ہم دہشت گردی، انتہا پسندی عدم رواداری، تحمل اور عدم برداشت کے خلاف جنگ جیت سکیں، ملک ترقی اور خوشحالی کا حامل معاشرہ بن سکے۔ لیکن یہ سب ”تبدیلی سرکار“ کو کون سمجھائے؟ بڑے بڑے دانشور، تجزیہ نگار اور صاحب رائے افراد پہلے نو ماہ میں ہی اپنے آپ پر لعنت ڈال کر گھر جا بیٹھے ہیں۔

جبکہ حالیہ الیکشن کے بعد مجھ جیسے عقل کے اندھوں کو بھی یہ امید ہونے لگی تھی کہ تبدیلی کے نام پر معرض وجود میں آنے والی حکومت حقیقی معنوں میں ملک میں نظام کی تبدیلی، کردار سازی اور انسان سازی کے لئے جدوجہد اور عام آدمی کی طرز زندگی میں تبدیلی کے لئے عملی اقدامات کریں گے۔ کیونکہ ”تبدیلی سرکار“ کے مہا لیڈر کا قول تھا کہ قومیں سڑکیں اور اونچی اونچی عمارات بنانے سے نہیں بنتی۔

مگر افسوس وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کٹے، مرغی سکیم کی ناکامی کے بعد بکری کی بحث چھیڑ کر پھر سے ہم جیسے ”اناڑی لکھاریوں“ کو ”تبدیلی سرکار“ کی حکومت کو طنز و تضحیک کا نشانہ بنانے کی دعوت دی ہے۔ وزیراعظم پاکستان اپنے خطاب میں کٹے، ککڑی اور بکری تک ہی رہتے تو بات پھر بھی ہضم ہو سکتی تھی۔ لیکن افسوس صد افسوس یورپ کی مثالیں دینے اور یورپ سے انگریزوں کو نوکری کے لئے پاکستان آنے کے دعوی کرنے والے وزیراعظم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اب غریبوں کو روزگار دینے کے لئے ٹھیلے اور چھابڑیاں بنا کر دینے کا اعلان کریں۔ کوئی جا کر عمران نیازی کو سمجھائے کہ غریبوں کی بات کرنے والوں اب آپ کے ڈائیلاگ پرانے ہو چکے ہیں کیونکہ مثال تو آپ ہمیشہ یورپ اور برطانیہ کی دیتے نہیں تھکتے تھے لیکن حقیقت میں آپ نے پاکستانی عوام کو ابھی تک انڈے، کٹے، مرغیوں، چوزوں، چھاپڑیوں اور بکریوں تک ہی محدود رکھا ہوا ہے۔

پاکستانی عوام کو چھابڑیاں لگواتے، کٹے، بکریاں اور مرغیاں پلواتے ہوئے آپ کو شرم نہیں آئے گی؟

کیا یہ آپ کے اس دعوی کی نفی نہیں جسمیں آپ نے غریبوں کو 50 لاکھ گھر بنا کر دینے اور بے روزگاروں کو ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا۔

مجھے تو ایسے لگتا ہے کہ یا تو آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ عمران نیازی کی ہونہار ٹیم اس قابل ہی نہیں کہ عوام کے فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کے لئے جامع پلان دے سکے یا پھر جان بوجھ کر کسی سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے بجائے انہیں چھابڑی، بکری، کٹے، انڈے اور مرغی والے دور میں رکھنا چاہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).