سپورٹس مین سپرٹ


مسلم لیگ ن کو حنیف عباسی کی رہائی کی شکل میں ایک اور ریلیف مل گیا۔ ایفی ڈرین کیس میں لاہور ہائیکورٹ نے سابق ایم این اے حنیف عباسی کی سزا معطل کر دی۔ جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے فیصلہ سنایادرخواست میں موقف اپنایا گیا کہ انسداد منشیات عدالت نے فیصلے میں اہم قانونی نکات نظر انداز کیے، کیس میں نامزد دیگر 7 ملزمان کو رہا کر دیا گیا ہے، درخواست گزار کے خلاف کیس سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا۔

حنیف عباسی کے حق میں فیصلہ ن لیگ کی بہت بڑی اخلاقی فتح ہے۔ مسلم لیگ (ن) پہلے دن سے اس موقف پر کھڑی ہے کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، مریم نوا ز، حمزہ شہباز، کیپٹن صفدر سمیت اہم ترین رہنما سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، کیپٹن صفدر، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق اوربہت سے پارٹی کارکنان کو حکومت احتساب کے نام پرانتقامی کارروائی کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں سیاسی مقدمات میں الجھا کر پی ٹی آئی کو سیاسی فائدہ پہنچایا جا رہا ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کا دو ٹوک الفاظ میں حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہنا کہ نیب کٹھ پتلی حکمرانوں کا آلہ کار بن چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کا نواز لیگ سے زیادہ سخت مؤقف کی وجہ یہ ہے کہ آئندہ چند دنوں میں پیپلز پارٹی کے کچھ اہم رہنماؤں کی گرفتاری ممکن ہے۔ مختلف مقدمات اور انکوائریز میں سابق صدر آصف علی زرداری، فریال تالپور اور بلاول بھٹو زرداری پیشیاں بھگت رہے ہیں۔

ہماری قوم کا المیہ ہے کہ عرصہ دراز سے حکمران اپنے سیاسی مخالفین سے انتقام لینے کے لئے نیب کو بطور آلہ استعمال کرتے آئے ہیں۔ سابق صدر مشرف نے نیب کو اپنے مخصوص سیاسی مخالفین کو ٹارگٹ کے لیے استعمال کیا۔ شاید وہی بری ساکھ آج بھی نیب کا پیچھا کر رہی ہے۔ بلا تفریق احتساب ضرور ہونا چاہیے مگر احتساب کو انتقام کہنا درست نہیں۔ پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن) کانیب کو کالا قانون کہنا اس لئے بھی نہیں جچتا کیونکہ دونوں اسی کالے قانون کے ساتھ اقتدار میں رہیں۔ احتساب کے عمل کون لیگ کے دور میں سیف الرحمن نے چن چن کرسیاسی مخالفین کو ٹارگٹ کیا۔ سیف الرحمن کے احتساب کمیشن کوؤ آج بھی منفی الفاظ میں ہی یاد کیا جاتا ہے۔

2018 کے انتخابات میں کرپشن کرپشن کا شور مچاکر ن لیگ کے مرکزی رہنماؤں کو عوام کے سامنے برا بنا کے انہیں جیل ڈال دیا گیا جس سے پی ٹی آئی کے الیکشن جیتنے کی راہ ہموارہوئی۔ عمران خان کی حکومت بننے کے بعد آہستہ آہستہ نیب کے اپنے ہی لگائے ہوئے الزامات کی روشنی میں سزا یافتہ ن لیگی رہنما رہا کر کے کہا جا رہا ہے کہ انہیں ریلیف دیا جا رہا ہے۔ میاں نواز شریف کو نا اہل کر کے وزارت عظمی سے ہٹایا گیا، انہیں مریم نواز سمیت جیل میں ڈالا گیا، ن لیگ کی حکومت چھین لی گئی، ان کی سیاسی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا، آدھی سے زیادہ ن لیگ آج بھی مقدمات کی زد میں ہے اور کہا جا رہا ہے کہ انہیں ریلیف دیا جا رہا ہے۔

عمران حکومت ن لیگ کواس وقت صرف اس لئے ریلیف دے رہی ہے کیونکہ وہ ایک وقت میں صرف ایک ہی بڑی پارٹی پر ہاتھ ڈال سکتے ہیں۔ بلاول، نواز شریف کے بعد مولانا فضل الرحمان کی نواز، زرداری سے ملاقات کے بعد حکومت کو خدشہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دونوں بڑی جماعتیں مل کر عمران خان کی کمزور عددی اکثریت والی حکومت نہ گرا دیں۔ لہذا، ن لیگ کو ریلیف دیا جانا پیپلز پارٹی کے بڑوں پر ہاتھ ڈالنے کی چال ہو سکتی ہے۔

میاں نواز شریف کو 2018 کے عام انتخابات سے پہلے اور شہباز شریف کو ضمنی انتخابات سے پہلے گرفتار کیا گیا جو کہ اتفاق نہیں بلکہ کسی سکرپٹ کا حصہ لگتا ہے۔ کیاشریف فیملی پر دھائیوں سے لگائے جانے والے الزامات کا فیصلہ چند دن بعد نہیں ہو سکتا تھا؟ لیکن اگر چند دن گزر جاتے، انتخابات کا نتیجہ نکل آتا تو شاید ان مقدمات کا مقصد ہی فوت ہو جانا تھا۔ کیونکہ یہ گرفتاریاں انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لئے ہی کی گئی تھیں۔

احد چیمہ اور فواد حسن فواد کو کافی نچوڑنے کے باوجود شریف فیملی کی کرپشن کا ایک قطرہ ثبوت نہیں نکل سکا۔ سیاست سے د لچسپی رکھنے والوں کو میاں شہباز شریف قومی اسمبلی میں تقریرضرور یاد ہوگی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ، ملک میں احتساب کا عمل جانبدار اور یک طرفہ ہے۔ پی ٹی آئی کا اور قومی احتساب بیورو کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ شہباز شریف کا دعویٰ تھا کہ وہ نیب اور پی ٹی آئی کے ’ناپاک اتحاد‘ کو سب کے سامنے لانے کے لیے اسمبلی میں آئے ہیں۔

انہوں نے نیب کو ’نیشنل بلیک میلنگ بیورو‘ کا عنوان دیتے ہوئے کہا تھاکہ نیب نے ان سے کہا ہے کہ وہ خواجہ آصف کے خلاف بیان دیں جس پر انہوں نے نیب کو کہا کہ وہ اس مقدمے پر سوال کریں، جس کی نیب تفتیش کر رہا ہے۔ شہباز شریف کی تقریر نے اس تاثر کو تقویت دی کہ نیب کو حکومت مخالف حلقوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر یہ تمام باتیں جھوٹ ہیں تو خود مختار نیب نے شہباز شریف کے دعوؤں اور الزامات کا نوٹس کیوں نہیں لیا؟

ملک میں ہر دوسرا فرد ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔ عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ الجھن عروج پر ہے۔ مہنگائی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر رزاق داؤد مہنگائی میں اضافے کا خود اعتراف کر بیٹھے ہیں وہ مہنگائی کے بڑھنے کی محرکات کا جائزہ لئے رہے ہیں۔ حکومت کو آٹھ مہینے گزرنے کے باوجویہ نہیں پتا کہ مہنگائی کیسے ہو گئی، انہیں یہ نہیں پتا کہ گیس کیسے مہنگی ہو گئی، بجلی کے ریٹس کیسے بڑھ گئے، تیل کیسے عوام کی پہنچ سے دور ہو گیا، ادویات کی قیمتوں میں کیسے ہوشرباء اضافہ ہو گیا، ڈالر کیسے مہنگا ہو گیا؟

انہیں صرف ایک بات کا پتا ہے اور وہ یہ کہ شریف خاندان نے بہت کرپشن کر رکھی ہے۔ عمران خان نے پنجاب کے وزراء کو ان کی اپنی کارکردگی پوچھنے کے بجائے کہا ہے کہ وہ شریف خاندان کی کرپشن کے بارے میں سب کو بتائیں اور شریف خاندان کے چہرے سے نقاب اٹھائیں۔ افسوس کہ وہ ان کے خلاف جو بھی کیس عدالتوں میں لے جاتے ہیں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ شور مچاتے رہے کہ میاں نواز شریف نے تین سو ارب روپے کی کرپشن کی، وہ آج ضمانت پر گھر بیٹھے ہیں۔

انہوں نے کہا مریم نواز کے لندن میں بے نامی فلیٹس ہیں، کیپٹن صفدر بھی کرپٹ ہیں، مریم نواز اور کیپٹن صفدر دونوں بھی ضمانت پر ہیں۔ میاں شہباز شریف آشیانہ ہاوسنگؤسکیم، رمضان شوگر مل، صاف پانی سمیت درجنوں مقدمات میں ملوث ہیں اس کے باوجود وہ لندن جا چکے ہیں۔ نیب کو حمزہ شہباز کے ایشو پر بھی سبکی ہوئی، حکومت حسن اور حسین نواز کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کے باوجود اپنا کیس اتنا مضبوط نہ بنا سکی کہ انہیں قانونا لندن سے لایا جا سکے۔

اگر خواجہ آصف کی بھی ضمانت ہو جاتی ہے اور دوسری طرف آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ کی ضمانتوں میں بھی توسیع کے باوجود اگر آصف علی زرداری بھی گرفتار نہیں ہوتے تو پھر کرپشن کے خلاف حکومت کا سارا بیانیہ ریت کی دیوارثابت ہو گا۔ جس کے بعد حکومت کے اصل ایشو یعنی ان کی نالائقی اوربد انتظامی اوربری کارکردگی کھل کر عوام کے سامنے آ جائے گی۔ آئندہ بجٹ سے ہونے والی ناقابل برداشت مہنگائی اس حکومت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی۔

اب تو پاکستان کی عدالتوں نے بھی سیاسی انتقام کو اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ عدالتی فیصلے جیسے بھی ہیں ان فیصلوں کا فائدے حکومت کو نہیں بلکہ اپوزیشن کو ہو رہا ہے۔ عمران خان اپنی انا کے پہاڑ تلے روز بروز دبتے جا رہے ہیں۔ پاکستانی عوام تو اس عمران خان کی دیوانی ہے جس نے کرکٹ کے میدان میں وہ کر دیکھایا جو آج تک کوئی نہ کر سکا۔ عوام تو اس بہادر اور صاف شفاف کرکٹ کھیلنے والے عمران خان پر فخر کرتی رہی جو بھارت کے ساتھ میچ میں مخالف کھلاڑی کے آوٹ پر احتجاج نہیں دیکھ سکا اور اسے واپس کھیلنے کی دعوت دے کر دوسری ہی گیند پر آوٹ کرا کے میدان سے باہر بھیج کر اپنی اخلاقی فتح کا ثبوت دیا۔

آج سیاست میں اپنے سیاسی مخالفین کو عمران خان الیکشن سے ایک دن قبل نیب زدہ قرار دے کر خالی میدان میں اپنی فتح کا جشن کیسے منا سکتا ہے۔ حنیف عباسی، نہال طلال اور دانیال عزیز سمیت بہت سے ن لیگی امیدوار ایسے ہیں جنہیں مختلف مقدموں کی آڑ میں نیب نے الیکشن لڑنے سے محروم رکھا جہاں سے پی ٹی آئی انتخابات جیتی، آج حنیف عباسی سمیت تقریبا سب بری ہو چکے ہیں مگر الیکشن تو ہو چکے۔ وزیر اعظم عمران خان، آپ تو کہتے تھے کہ نواز شریف ایمپائراپنے کھڑے کر کے میچ کھیلتا ہے اس میں سپورٹس میں سپرٹ ہے ہی نہیں۔ 2018 کے انتخابات میں جو ہوا کیا یہی اسپورٹس مین سپرٹ ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).