بھارت میں انتخابات اور مودی سرکار کے دعوے


ہر سیاسی جماعت اقتدار میں آنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے ساتھ عوام کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے بڑے بڑے وعدے اور دعوے کرتی ہے۔

اسی طرح مودی سرکار نے اقتدار میں آ نے اور رہنے کے نا صرف بڑے بڑے وعدے کیے بلکہ چھوٹے سچے دعووں کا ایسا بازار گرم کیا کہ بین الاقوامی سطح پر بھی ان کی خوب جگ ہنسائی ہو ئی۔

بھارت میں عام انتخابات کے پہلے مرحلے کے لئے گزشتہ روز ووٹنگ ہوئی۔ سات مراحل میں ہونے والے الیکشن کے نتائج کا اعلان 23 مئی کو ہو گا۔

پہلے مرحلے میں 91 نشستوں کے لئے آندھرا پردیش، آسام، بہار، جموں کشمیر اڑیسہ اور اترپردیش سمیت بیس ریاستوں میں ووٹنگ ہو گی۔ انتخابات میں مودی کی برتری کا امکان ہے۔ یا د رہے کہ یہ الیکشن کئی اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا جمہوری عمل ہے جس میں تقریباً 90 کروڑ ووٹرز حصہ لینے کے اہل ہیں۔

سنہ 2014 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ایک بار پھر سے حکومت سازی کے لیے ووٹ کے خواہش مند ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کو ووٹ دیا جائے تاکہ وہ انڈیا کی کایا پلٹنے کے اپنے مشن کو جاری رکھ سکیں۔ اس کے بر عکس حزب اختلاف کی اہم پارٹی کانگریس کا کہنا ہے کہ مودی سرکار اہم شعبوں میں ناکام ہو گئی ہے۔

آئیں ایک مختصر سی نظر مودی حکومت کی کارکردگی پر ڈالتے ہیں۔

ہندوستان کو محفوظ رکھنا

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق فروری کے اختتام پر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حملے کے نتیجے میں 40 فوجی ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد سکیورٹی اہم معاملہ بنا ہوا ہے۔ مودی سرکار کا کہنا ہے کہ وہ ملک کی سکیورٹی کے حقیقی نگہبان ہے۔ لیکن حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی نے اس کے جواب میں کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں کشمیر میں سکیورٹی حالات سنہ 2014 سے قبل ان کی حکومت کے زمانے سے کہیں زیادہ خراب ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گذشتہ سال کے اختتام پر دونوں حکومت کے دور میں عسکریت پسندی تقریباً یکساں رہی ہے۔

اسمارٹ سٹی

سنہ 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد بھارتی حکومت کی جانب سے اسمارٹ سٹی کا اعلان کیا گیا تھا، اس کے ایک سال بعد سنہ 2015 میں ’اسمارٹ سٹی اسکیم‘ لانچ کی گئی۔ حکومتی دعویٰ کے مطابق 100 شہروں میں بجلی اور توانائی کو پورا کرنے والی عمارتوں کے ساتھ ساتھ پانی، کوڑے اور ٹریفک جیسے بنیادی مسائل سے نمٹنے کے لیے نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا۔

حکومت نے اسمارٹ سٹی مشن کے 5115 منصوبوں کو منظوری دی، جس کا بجٹ تقریباً دو کھرب روپے تھا۔ تاہم حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ اس کے 39 فیصد منصوبے ابھی جاری ہیں یا مکمل ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت نے اس کے متعلق مزید معلومات فراہم نہیں کی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اسمارٹ شہر کے مشن کے لیے مختص بجٹ سے ابھی اس مد میں بہت کم پیسہ خرچ ہوا ہے۔

میک ان انڈیا

مودی حکومت نے اقتصادی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے مینوفیکچرنگ شعبے کی طرف نگاہ کی۔ اپنی ’میک ان انڈیا‘ اسکیم کے تحت اس نے مجموعی ملکی پیداوار میں مینوفیکچرنگ شعبے کا حصہ سنہ 2025 تک 25 فیصد تک کرنے کا عہد کیا ہے جس میں مجموعی طور پر مال اور خدمات دونوں شامل ہیں۔ لیکن اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں مینوفیکچرنگ شعبے کا تعاون محض 15 فیصد تک رہا ہے اور ماہرین کو ہدف کے حصول میں شبہ ہے۔ بہر حال مجموعی طور پربھارتی معیشت ترقی پزیر ہے۔

بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ یوجنا

کیا انڈیا میں خواتین زیادہ محفوظ ہیں؟ بی جے پی کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے خواتین کے خلاف تشدد سے لڑنے کے لیے سخت قوانین متعارف کرائے ہیں۔ جبکہ کانگریس پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں خواتین کی سکیورٹی پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 22 جنوری 2015 کو بیٹی ”بچاؤ بیٹی پڑھاؤ یوجنا“ منصوبہ کا آغاز کیا جس کا مقصد بچیوں اور خواتین کے حوالہ سے بیداری اور رفاہی خدمات کی فراہمی میں ترقی لانا تھا، لیکن اعداد وشمار کے مطابق بھارت میں ریپ کے واقعات کے متعلق حکام کے پاس شکایتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس میں بطور خاص سنہ 2012 میں دہلی میں ہونے والے بدنام زمانہ ریپ معاملے کے بعد اضافہ دیکھا گیا ہے۔

لیکن گذشتہ چند برسوں میں عدالت میں جانے والے ریپ کے معاملات میں مجرم قرار دیے جانے کی شرح میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ لہذا اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ مودی سرکار بھارت میں خواتین کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی۔

کسان مکتی مارچ

انڈیا کی بڑی آبادی گزربسر کے لیے زراعت اور کاشتکاری پر منحصر ہے۔ اس لیے رواں انتخابات میں دیہی معیشت کی حالت اہم معاملہ ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق حزب اختلاف نے کسانوں کی زبوں حالی کی نشاندہی کی ہے کہ کس طرح ان کی روزی روٹی متاثر ہوئی ہے۔ تین سال قبل وزیر اعظم مودی نے سنہ 2022 تک کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن حکومت کے اپنے ہدف تک پہنچنے کی علامات نہیں ہیں۔ مشکلات کے شکار کسانوں کی امداد کے لیے جو ایک پالیسی اپنائی گئی وہ ان کے قرضوں کی معافی تھی۔

عام طور پر تقریباً ہر پانچ سال پر ہونے والے نیشنل ہاؤس ہولڈ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ انڈیا میں کئی سالوں سے دیہی قرضوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ بہر حال ابھی سنہ 2017 / 18 کے اعداد و شمار ابھی آنے باقی ہیں۔

نریندر مودی نے ماضی کی قرض معاف کرنے اسکیم پر کانگریس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ زراعت کے شعبے میں مشکلات کے یہ حقیقی حل نہیں ہیں۔

یاد رہے کہ نومبر سنہ 2018 میں انڈیا کے کسان مودی حکومت کے خلا ف سڑکوں پر نکل آئے تھے انہوں پینشن اسکیم او ر دیگر مالی سہولیت کے لیے ”کسان مکتی مارچ“ کا اہتمام کیا تھا۔ کیونکہ قرضے کے بوجھ اور زرعی پیداوار کے نرخوں میں اضافے کی وجہ سے انڈیا میں روزانہ 45 کسان خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز 10 اپریل 2019 کو بھارتی ریاست اترکھنڈ کے ضلع ہردوار کے گاؤں میں ایشور چند شرما نامی 65 سالہ کسان نے زہر پی کر خودکشی کی اور دنیا سے رخصت ہونے سے قبل اپنے آخری پیغام میں لکھا کہ ’بھارتیہ جنتا پارٹی کو ووٹ نہ دیں‘ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے 5 سال میں کسانوں کو تباہ کردیا ہے۔

صفائی اورٹوائلٹ بنانا مہم

نریندر مودی اپنے صاف ستھرے ہندوستان کے پروگرام کے تحت مختلف قسم کے وعدے کیے سنہ 2016 میں حکومت نے کروڑوں گھروں میں ایل پی جی گیس سلینڈر کی فراہمی کا پروگرام شروع کیا تاکہ کیروسین تیل، لکڑی اور گوبر کے اپلے جیسے آلودگی پیدا کرنے والے ایندھن کی حوصلہ شکنی ہو۔ بہت سے گھروں نے صاف ایندھن کا استعمال شروع کر دیا۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ یہ کامیاب رہا۔ لیکن ایسے شواہد ہیں کہ سلینڈر کو دوبارہ بھرنے کی قیمت ایل پی جی کے مستقل استعمال کی راہ میں حائل ہے۔

انڈیا میں کھلے میں رفع حاجت کرنا اور بیت الخلا کی کمی زمانے سے بڑا مسئلہ رہا ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے کلین انڈیا پروجیکٹ کے ضمن میں کہا کہ اب نوے فیصد گھروں میں بیت الخلا ہے اور سنہ 2014 میں ان کے حکومت میں آنے کے مقابلے میں یہ 40 فیصد زیادہ ہے۔

یہ درست ہے کہ بی جے پی حکومت نے اپنے دور میں واقعی بہت سے گھروں میں بیت الخلا بنائے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سب بیت الخلا ٹھیک سے کام نہیں کر رہے ہیں اور ایسے شواہد ہیں کہ مختلف وجوہات کی بنا پر سب کا استعمال نہیں ہو رہا ہے۔

دریائے گنگا کی صفائی

ہندوؤں کے مقدس ترین دریا ”دریائے گنگا“ کی صفائی حکومت کے سب سے بڑے پروجیکٹوں میں سے ایک ہے۔ نریندر مودی نے اس منصوبے میں دریائے گنگا کی صفائی کے لیے تین ارب ڈالر کی رقم دی ہے۔ دریائے گنگا زیادہ استعمال کیے جانے اور آلودگی کی وجہ سے گدلی ہو چکی ہے۔ برطانیوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس میں مزید پیسے دیے گئے ہیں لیکن ابھی ان کا ایک حصہ ہی خرچ ہوا ہے۔ اس لیے قدرے بہتری کے باوجود دریائے گنگا کے آئندہ سال تک پوری طرح صاف ہونے کے امکانات بالکل نہیں ہیں۔

اب کون تخت بھارت پر حکمرانی کرے گا اس کا فیصلہ عوام اور اس کی طاقت ووٹ کرے گا اوریہ 23 مئی 2019 کو معلوم ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).