سوڈان میں بغاوت کی رہنما 22 سالہ لڑکی؟


سوڈان میں 11 اپریل کو فوج نے ملک میں جاری طویل مظاہروں کے بعد بغاوت کرتے ہوئے ملک کے صدر عمر حسن احمد البشیر کو حراست میں لے لیا تھا۔ سوڈان کے وزیر دفاع نے بھی ملک کی فوج کی جانب سے حکومتی انتظامات کو سنبھالنے کی تصدیق کی تھی اور بتایا تھا کہ 2 سال کے اندر عام انتخابات کرائے جائیں گے۔

سوڈان کی فوج نے ملک پر 30 سال تک حکومت کرنے والے صدر عمر البشیر کو ایک ایسے وقت میں گرفتار کر کے حکومت کے انتظامات سنبھالے جب 2 دن قبل ہی ایک سوڈانی لڑکی کی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہوئی تھیں۔ ان ویڈیو میں سفید لباس میں ملبوس نوجوان لڑکی کو لوگوں کے ہجوم سے جوشیلا خطاب کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ ویڈیوز میں نوجوان لڑکی کو گاڑی کے اوپر کھڑے ہوکر پُرجوش انداز میں مظاہرین سے نعرے لگواتے بھی دیکھا جا سکتا تھا۔

اس لڑکی کی حکومت مخالف مظاہروں کے دروان سامنے آنے والی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد سوڈان کے بڑے شہروں، خصوصی طور پر دارالحکومت خرطوم میں مظاہروں میں نوجوانوں کی تعدادمیں اضافہ ہوا۔

برطانوی اخبار ’دی گارجین‘ کے مطابق ابتدائی 2 دن تک انٹرنیٹ پر اس لڑکی کی تصاویر وائرل ہوتی رہیں اور اسے سوڈان کے ایک نئے لیڈر کے طور پر جانا جانے لگا۔ اس لڑکی کے حوالے سے کچھ تفصیلات سامنے آ چکی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس لڑکی کی شناخت 22 سالہ آلاء صالح کے طور پر ہوئی ہے جو آرکیٹکچر کی طالبہ ہیں۔ اس نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ وہ ایک نئی سیاسی لہر اور نوجوانوں میں بیداری کا باعث بنیں۔

آلاء صالح نے بتایا کہ ان کی وائرل ہونے والی تصاویر 8 اپریل 2019 کو دارالحکومت خرطوم میں ہونے والے مظاہرے کے دوران اس وقت کھینچی گئی تھیں جب وہ مظاہرے میں شریک لوگوں کے حجوم سے خطاب کر رہی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق کسی سیاسی گھرانے سے نہیں ہے، تاہم وہ سوڈان میں بہتری کے لیے سڑکوں پر آئی اور لوگوں کے ہجوم میں شامل ہوکر نوجوانوں کا حوصلہ بڑھانے لگیں۔ ساتھ ہی انہوں نے اعتراف کیا کہ ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد انہوں نے مظاہرین کو مزید جوش دلوانے کے لیے تیاری کی اور انہوں نے مظاہروں کے دوران انقلابی شاعری پڑھنا اور نعرے لگوانا شروع کیے۔

اگرچہ بغاوت میں اس لڑکی کا براہ راست کوئی کردار نہیں، تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ ان کی جانب سے مظاہروں میں نوجوان نسل کا جوش بڑھانے کی وجہ سے فوج نے آگے آنے کا فیصلہ لیا۔

خیال رہے کہ سوڈانی صدر عمر البشیر کے خلاف ماضی میں اگرچہ وقتا بوقتا مظاہرے ہوتے رہے ہیں، تاہم گزشتہ برس دسمبر سے مسلسل ان کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تھے۔ 30  سال تک حکومت کرنے والے صدر کے خلاف ان مظاہروں میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا اور رواں ماہ کے آغاز میں یہ مظاہرے پر تشدد ہو گئے اور گزشتہ ہفتے تک کم سے کم مظاہروں کے دوران 10 افراد کے ہلاک ہوجانے کی اطلاعات بھی آئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).