کیٹی بومن: وہ خاتون جو بلیک ہول کی پہلی تصویر یکجا کرنے میں کامیاب رہیں
امریکی سائسدان کیٹی بومن 29 سالہ کمپیوٹر سائنٹسٹ ہیں جنھوں نے سائنسدانوں کی اس ٹیم کی قیادت کی جس نے بلیک ہول کی پہلی تصویر لینے والا الگورتھم بنایا۔ کیٹی کے اس کام کی وجہ سے ان کی دنیا بھر میں تعریف کی جارہی ہے۔
کیٹی بومن کی قیادت میں ان کی ٹیم نے وہ کمپیوٹر پروگرام بنایا جس کے ذریعے یہ سائنسی کارنامہ ممکن ہو سکا۔ بدھ کے روز جاری کی جانے والی اس تصویر میں زمین سے پانچ سو ملین ٹرلین یا پانچ ہزار کھرب کلومیٹر دور ایک بلیک ہول دیکھا جاسکتا ہے جس میں دھول اور گیس کا ہالا نظر آرہا ہے۔
اس سے قبل سائنسی حلقوں میں یہ تصور تھا کہ اس طرح کی تصویر لینا شاید ممکن نہ ہو۔ کیٹی بومن اس بڑے کارنامے کے لمحے پر انتہائی پرجوش تھیں اور ان کی ایک تصویر میں انھیں بلیک ہول کی تصویر اپنے لیپ ٹاپ پر ڈاؤن لوڈ کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔
اپنی فیس بک پوسٹ میں ڈاکٹر کیٹی نے لکھا ’جیسے جیسے بلیک ہول کی میری بنائی ہوئی پہلی تصویر حصوں میں تشکیل پا رہی تھی تو مجھے بلکل یقین نہیں آرہا تھا۔‘
کیٹی بومن نے تین برس قبل اس وقت سے الگورتھم بنانا شروع کردیا تھا جب وہ میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں گریجویشن کی طالب علم تھیں۔
وہاں انھوں نے اس پراجیکٹ کی قیادت کی اور ان کے ساتھ ایم آئی ٹی کی کمپیوٹر سائنس اینڈ آرٹیفیشل انٹیلیجنس لیبارٹری، ہارورڈ سمتھسونین سینٹر فار ایسٹرو فزکس اور ایم آئی ٹی ہے سٹیک آبزرویٹری کی ایک ٹیم کا تعاون حاصل رہا۔
بلیک ہول کی یہ تصویر ایونٹ ہورائزن ٹیلی سکوپ یا ای ایچ ٹی نے بنائی جو کہ اصل میں آٹھ دور بینوں کا ایک دوسرے سے جڑا ایک نیٹ ورک ہے۔ لیکن ان الگ الگ دوربینوں کی بنائی ہوئی تصویروں کو رینڈر یا یکجا ڈاکٹر بومن کے الگورتھم نے کیا۔
بلیک ہول کی غیرمعمولی تصویر کے جاری ہونے کے بعد گھنٹوں میں ڈاکٹر بومن بین الاقوامی سطح پر معروف نام بن گئیں اور ان کا نام ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرنے لگا۔ ایم آئی ٹی اور سمتھسونین نے بھی سوشل میڈیا پر ان کی تعریف کی۔
ایم آئی ٹی کی کمپیوٹر سائینس اینڈ آرٹیفیشل انٹیلیجنس لیب نے لکھا، ’تین برس قبل ایم آئی ٹی کی گریڈ طالبہ کیٹی بومن نے بلیک ہول کی پہلی تصویر بنانے کے لیے ایک نئے الگورتھم بنانے کی قیادت کی، آج یہ تصویر جاری ہوگئی ہے۔‘
Left: MIT computer scientist Katie Bouman w/stacks of hard drives of black hole image data.
Right: MIT computer scientist Margaret Hamilton w/the code she wrote that helped put a man on the moon.
(image credit @floragraham)#EHTblackhole #BlackHoleDay #BlackHole pic.twitter.com/Iv5PIc8IYd
— MIT CSAIL (@MIT_CSAIL) April 10, 2019
لیکن ڈاکٹر بومن کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم بھی برابر کی تعریف کی مستحق ہے جس نے اس خواب کو حقیقت بنایا۔ وہ اب امریکہ کے کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
بلیک ہول کی یہ تصویر لینے کے لیے انٹارکٹیکا سے لیکر چلی تک پھیلے ہوئے دوربینوں کے نیٹ ورک کا استعمال کیا گیا اور اس کام میں دو سو سے زیادہ سائنسدان شامل تھے۔
ڈاکٹر بومن نے سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے کوئی بھی ایک شخص اپنے طور پر یہ کام نہیں کر سکتا تھا۔ یہ اس لیے ممکن ہوسکا کیونکہ مختلف طرح کا کام کرنے والے بہت سارے لوگ اس پر مل کر کام کر رہے تھے۔
بلیک ہول کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
- بلیک ہول آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا اور وہ چالیس بلین کلومیٹر طویل یا زمین سے تیس لاکھ گنا بڑا ہے۔
- یہ میسیئر 87 گیلیکسی میں دس روز تک سکین کیا جاتا رہا۔
- نیدر لینڈ کی یونیورسٹی رڈباؤڈ کے پروفیسر ہائنو فالکے نے اس تجربے کی تجویز دی تھی۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس بلیک ہول کا حجم ہمارے پورے نظام شمسی سے بھی بڑا ہے۔
کیٹی بومن کے الگورتھم نے یہ تصویر کیسے بنائی؟
عام زبان میں بتایا جائے تو یہ ہے کہ ڈاکٹر بومن اور دیگر سائنسدانوں نے مل کر ایسے الگورتھمز کا سلسلہ تشکیل دیا جنھوں نے مختلف دوربینوں سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو اس تاریخی فوٹوگراف میں تبدیل۔ اب اس تصویر کو دنیا کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔
میتھمیٹکس اور کمپیوٹر سائنس میں الگورتھم ایک ایسا عمل یا اصولوں کا مجموعہ ہے جن کے ذریعے پیچیدہ مسائل کا حل نکالا جاتا ہے۔
کوئی ایک ٹیلی سکوپ اتنی طاقتور نہیں ہے جو بلیک ہول کی تصویر بنا سکتی ہو اس لیے انٹرفیرومیٹری نامی تکنیک استعمال کرتے ہوئے، آٹھ دوربینوں کا ایک نیٹ ورک قائم کیا گیا۔
ان دوربینوں کو سیکڑوں کمپیوٹر ہارڈ ڈرائوز پر محفوظ کیا گیا اور انھیں امریکہ کے شہر بوسٹن اور جرمنی کے شہر بون میں قائم مرکزی پراسسنگ مراکز میں بھیجا گیا۔
کہا جارہا ہے کہ اس ڈیٹا کو پراسز کرنے کا جو طریقہ ڈاکٹر بومن نے وضع کیا تھا وہ اس تصویر کو بنانے یا یو کہیے کہ یکجا کرنے میں سب سے اہم ثابت ہوا۔
ان کے طریقے سے متعدد الگورتھمز مختلف ممکن زاویوں اور امکانات کا استعمال کرتے ہوئے دستیاب ڈیٹا سے تصویر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس کے بعد ان الگورتھمز کا تجزیہ چار الگ الگ ٹیموں نے کیا تاکہ ان کی دریافت کے بارے میں مکمل اعتماد کیا جاسکے۔
ڈاکٹر بومن نے کہا کہ ’ہم فلکیات دانوں، فزکس کے ماہرین، ریاضی دانوں اور انجینیئرز کا ایک مجموعہ تھے تبھی اتنی بڑی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے ہیں جو اب سے پہلے ناممکن تصور کی جاتی تھی۔‘
- ایلون مسک اور ’ناقابل فہم‘ 56 ارب ڈالر تنخواہ کا تنازع: ’چھ سال سے ان کو کام کے بدلے کوئی پیسہ نہیں ملا‘ - 18/04/2024
- پاکستان میں مرغی کے گوشت کی قیمت کو پر لگنے کی وجہ چوزوں کی افغانستان برآمد ہے یا مہنگی فیڈ؟ - 18/04/2024
- امر سنگھ چمکیلا: پنجاب کے ’باغی راک سٹار‘ جن کا صرف 27 سال کی عمر میں قتل آج تک ایک معمہ ہے - 18/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).