بھارتی انتخابات میں فاتح کون؟


دنیا کی سب بڑی جمہوریت، انڈین لوک سبھا کے 17 ویں انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا، 20 ریاستوں کی 91 نشستوں کے لئے 14 کروڑ 20 لاکھ ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ کُل ایک ارب 30 کروڑ آبادی والے ملک میں 90 کروڑ ووٹرز اگلے پانچ سالوں کے لئے 543 نشستوں پر اپنی قیادت کا چناؤ کرنے جا رہے ہیں۔ 7 مراحل میں منعقد ہونے والے انتخابات 6 ہفتوں میں مکمل ہوں گے اور ان کے حتمی نتائج کا اعلان 23 مئی کو ہوگا۔

بھاری ہندو میجارٹی کے باوجود رنگا رنگ ہندوستان مختلف مذاہب، ثقافتوں اور زبانوں کا ملک ہے، جسے مشترکہ ہندی تہذیبی اقدار اور سیکولر اپروچ پر مبنی جمہوری پارلیمانی آئین نے ایک وحدت اور طاقت بخش رکھی ہے، جو اپنی ابھرتی اکانومی اور طاقتور فورس کے ساتھ خود کو چین کی مسابقت میں دیکھتا ہے مگر افسوس اس وقت پاکستان کی طرح یہ اتنی بڑی جمہوریت بھی قیادت کے بحران سے دوچار ہے۔ ایک طرف راہول گاندھی کی قیادت میں اندرا کانگرس ہے تو دوسری طرف نریندر مودی کی رہنمائی میں بی جے پی کی حکمرانی۔

جدید ہندوستان کے لئے کانگرس کی خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں، یہی وہ سیکولر پارٹی ہے جس نے نہ صرف آزاد ئی ہند کے لئے بھرپور کوشش کی بلکہ مابعد ایک روادار اور جدید ہند کی تعمیر کے لئے گاندھی جی کے آدرشوں اور پنڈت نہرو کی قیادت میں بے مثال جد وجہد کی۔ بھارتی آئین اس کی سب سے خوبصورت مثال ہے، جسے ہندو توا یا ایس ایس آر والے بھی مسخ کرنے سے قاصر ہیں۔ پنڈت جی کے بعد ان کی باصلاحیت بیٹی اندرا گاندھی نے اپنے جمہوری ملک کو جس خوش اسلوبی سے آگے بڑھایا، اُس پر تنقید کی زیادہ گنجائش نہیں۔

کانگرس کی یہ بدقسمتی تھی کہ گاندھی جی کو جس جنونیت نے قتل کیا، اندرا گاندھی اور مابعد اُن کے بیٹے راجیو گاندھی بھی ویسی ہی جنونیت کی بھینٹ چڑھا دیے گئے۔ محترمہ سونیا گاندھی پر یہ اعتراض ہوتا تھا کہ وہ اوریجنل انڈین نہیں بلکہ اندرا گاندھی کی بہو ہونے اور نصف صدی یہاں گزارنے کے باوجود اٹالین ہیں۔ آج کانگرس کی باگ ڈور اگرچہ راہول گاندھی کی نسبتاً جواں قیادت کے ہاتھوں میں ہے مگر ان کی شخصیت میں شاید ان کے باپ، دادی اور پنڈت نہرو جیسا کرشمہ یا دم خم نہیں۔

ان کے مخالفین بالخصوص نریندر مودی انہیں ”پپو“ کے نام سے پکارتے ہیں۔ کانگرس کی انتخابی مہم کو جاندار بنانے کے لئے اس مرتبہ راہول گاندھی کے ساتھ اگرچہ پریانکا گاندھی کو بھی میدان میں اتارا گیا ہے، جن کے روپ میں بہت سے بھارتیوں کو اندرا گاندھی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ اس مرتبہ 2014 کی نسبت کانگرس کی پوزیشن قدرے بہتر ہو گی مگر جہاں تک کامیابی یا حکومت بنانے کے اندازے ہیں، وہ اس مرتبہ بھی نریندر مودی کی بی جے پی کے حق میں جاتے دکھائی دیتے ہیں۔

مودی کی شخصیت، سیاست اور حکمرانی پر بہت سے اعتراضات کیے جا سکتے ہیں اور کیے گئے ہیں۔ 2014 کے انتخابات سے قبل انہوں نے اپنے عوام کے سامنے جو بلند و بانگ دعوے اور وعدے کیے تھے، پانچ سال گزرنے کے باوجود وہ تشنہ تکمیل ثابت ہوئے، اب کے وہ نمک مسالا لگا کر پھر وہی سہانے سپنے دکھا رہے ہیں جن میں سب سے بڑا وعدہ بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ ہے۔ ان کے دور میں بہرحال اکانومی بہتر ہوئی، جس کی اٹھان کا اصل کریڈٹ وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو جاتا ہے۔

بی جے پی پر بالعموم اور مودی پر بالخصوص یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر نہ صرف ہندو انتہا پسندی کو بے جا فروغ دیا بلکہ اپنے پسماندہ طبقات میں پاکستان مخالف جذبات کو بھی خوب بھڑکایا۔ اُن کی یہ مفاداتی سوچ بھارتی سیکولر آئین اور سیکولر سوسائٹی کے لئے خطرناک اور تباہ کن ہے۔ اگرچہ بھارت میں بہت سی لبرل سنجیدہ آوازیں اٹھ رہی ہیں لیکن جذباتیت کی تباہ کاریوں میں سنجیدگی کی تعمیری سو چ ایک مدت تک دبی رہ جاتی ہے۔

مثال کے طور پر انہی دنوں جب پریانکا گاندھی نے ایودھیا جانا چاہا تو اُن کے سامنے یہ سوال رکھا گیا کہ وہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے حق میں ہیں یا مخالفت میں؟ یہی سوال جب اُن کے والد سے کیا گیا تھا تو وہ بولے تھے کہ رام مندر ضرور بننا چاہیے مگر ہم بابری مسجد پر خراش نہیں آنے دیں گے مگر اس وقت بی جے پی نے یہ سوچ خاصی کمزور کر دی ہے۔ مسلم ووٹر آج بھی اگرچہ کانگرس اور راہول گاندھی کو امید بھری نظروں سے دیکھتا ہے لیکن وہ بھی اپنی قیادت سے بڑی حد تک محروم ہے۔ بی جے پی والے اکثر یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ”پپو کہیں ہندو بن جاتا ہے اور کہیں مولانا“۔

ہنگامی سیاسی مفادات کی خاطر مودی نے حالیہ انتخابی مہم میں جس طرح پینترے بدلے، پاکستان کے خلاف جس نوع کی بیان بازی کی اور اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی خاطر جس طرح جھوٹ پر جھوٹ بولے، ان کی بنیاد پر اگر وہ انتخابی معرکہ جیت بھی جائیں، تاریخی طور پر وہ بڑے لیڈر کہلانے کے حقدار کبھی نہ بن پائیں گے۔ اس پس منظر میں ہمارے وزیراعظم عمران خان نے جو بیان دیا کہ مودی کی جیت سے مسئلہ کشمیر حل ہونے کے زیادہ امکانات ہیں، اس نوع کا بیان کوئی ایسا شخص ہی دے سکتا ہے جو بھارتی سیاست کے بنیادی حقائق سے نا آشنا ہو۔

حال ہی میں مودی نے صاف صاف الفاظ میں کہا کہ مسئلہ کشمیر بھی اسی طرح حل کیا جا سکتا ہے، جس طرح ریاست حیدر آباد اور جونا گڑھ کے مسائل حل کیے گئے۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا عندیہ ان دلائل کے ساتھ دیا کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 Aجو ریاست کشمیر کو خود مختار حیثیت دیتے ہیں، ریاست میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور بیرونی سرمایہ کاری میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، لہٰذا ہم ان کا خاتمہ کریں گے۔

درویش کی نظر میں ہمارے ذمہ داران کو خارجہ امور پر بیان بازی کرتے ہوئے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور خلافِ واقع بیانات سے احتراز کرنا چاہیے۔ ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ حکومت کے پاس بھارتی قیادت ازخود چل کر آئی تھی، جس سے متنازع مسائل حل ہونے کی امید باندھی جا سکتی تھی مگر ہم نے اس کی کیا درگت بنائی۔ واجپائی آئے تو کارگل ہو گیا۔ جو آگے بڑھتا تو سوائے قومی تباہی کے کچھ ہاتھ نہ آتا اور وہی پرویز مشرف مابعد بھارتی قیادت سے مذاکرات کے لئے بے قرار نظر آئے۔

دہلی اور آگرہ کی یاترا پر گئے مگر ناکام واپس لوٹے۔ حالانکہ اگر ہم نے ترقی کرنا ہے تو امن، بھائی چارے اور دوستی کے علاوہ کوئی آپشن نہیں مگر موقع ملنے پر ہم اس حقیقت کو طعنے بازیوں میں اڑا دیتے ہیں۔ ہماری جو کیفیت پہلے تھی، آج بھی ہے۔ ایک طرف ہم ”مودی کے یار“ کے طعنے دیتے ہیں تو دوسری طرف اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں۔
بشکریہ جنگ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).