ہیلمٹ ضروری ہے یا کنڈوم؟


کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے ”غلطی سے لوگ مرتے ہی نہی، بلکہ پیدا بھی ہو جاتے ہیں“

پتا نہی، یہ قول زریں کس قسم کے لوگوں کے لِئے کہا گیا تھا، لیکن پاکستانی قوم پر پوری طرح سے صادق آتا ہے۔ ہمارے ہاں اتنے لوگ مٹی ملی، کرم خوردہ اور سڑی ہوئی گندم کے آٹے، مردہ جانوروں کی انتڑیوں سے تیار شدہ گھی اور لکڑی کے برادے اور رنگ کی کی آمیزش سے تیار شدہ مرچیں کھا کر مرتے نہی، جتنے کہ لوڈ شیڈنگ کی برکت سے پیدا ہو کر سرف، یوریا اور کوکنگ آئل سے تیار شدہ دودھ پی کر بڑے ہو جاتے ہیں۔ ہم پاکستانی باقی سب کاموں میں بیشک دنیا سے صدیوں پیچھے ہوں، اپنی تعداد دن دگنی اور رات چگنی کرنے کے کام میں ہم دنیا کے امام ہیں۔

اللہ کے کرم اور اندھیری راتوں کی جان توڑ مشقت سے ہم ہر روز پاکستان کی آبادی میں پندرہ ہزار نفوس کا اضافہ کر دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس طوفانی رفتار سے روز پیدا ہونے والے نونہالوں کے لئے حکومت کو روزانہ کے حساب سے پچھتر نئے اسکول، تین سو نئے استاد، تین نئے ہسپتال پندرہ نئے ڈاکٹر، پانچ سے سات ہزار نئے گھر اور پندرہ ہزار ہی نئے روزگار کے مواقع دینے کی ضرورت ہے، جو کہ ظاہر ہے ایک ناممکن سا کام ہے۔

اسی لئے کوئی بھی حکومت اتنی بڑی آبادی کو اس قدر سہولتیں دینے میں ناکام رہتی ہے۔ اور اسی بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی کا ایک غالب حصہ کچھ ہی عرصہ بعد حکومت سے بیزار ہو جاتا ہے، اور اس کے جانے کی دعائیں کرنے لگ جاتا ہے۔ لیکن یار لوگ دن رات کی شفٹوں میں کام کر کر کے اس کار خیر کو انجام دینے میں جٹے ہوئے ہیں۔ ایسے لگتا ہے قائد کے فرمان، کام، کام اور صرف کام سے مراد ہم نے صرف یہی کام لے لیا ہے۔ اس جناتی رفتار سے آبادی کو بڑھانے میں ماشاء اللہ ہر کسی نے مقدور بھر کوشش کی ہے۔

ادھر مسجد کے اسپیکر سے مولوی صاحب اہل ایمان کی تعداد بڑھانے کی فضیلت، نکاح کی برکات اور زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کی حامل زوجہ کے حصول کی ضرورت بیان کرتے کرتے ہانپ رہے ہوتے ہیں، تو دوسری جانب محلے کا حکیم نامردی، سرعت انزال اور بانجھ پن کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے دعوے کرنے کے ساتھ ہی دن رات نسخے بنانے اور کشتے تیار کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ جن لوگوں کو میڈیکل سٹورز پر کنڈوم مانگتے ہوئے شرم آتی ہے، وہی جوان رعنا ویاگرا، سلاجیت اور دیگر دیسی و ولایتی دوائیاں ڈھونڈھتے ہوئے ہلکان ہوتے رہتے ہیں۔

ہر گھر میں موجود بڑی بوڑھیاں، پھوپھیاں اور تائیاں نئے نویلے شادی شدہ جوڑوں سے فوری رزلٹ کی ڈیمانڈ کرتی ہیں۔ دیر کی صورت میں جوڑے کا جینا دوبھر کر دیا جاتا ہے۔ میراثی اور منگتے ہر گھر کی دہلیز پر ”اللہ جوڑیوں کی پر جوڑیاں ملائے“ کی دعائیں دیتے سنائی دیتے ہیں۔ اور جوان جوڑے ان دعاوں کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ پہلے بیٹے کی خواہش میں بچے پیدا کیے جاتے ہیں، اور چار پانچ بیٹیوں کے بعد اگر بیٹا ہو جائے تو پھر اس کا بھائی برامد کرنے کی جان توڑ کوشش میں معاملہ درجن کے قریب جا پہنچتا ہے۔

پاکستانیوں کے پاس لیٹ نائٹ انٹر ٹینمنٹ کے علاوہ کوئی تفریحی سہولت موجود نہی۔ گلی محلوں میں نکلیں تو ہر گلی میں جلوس کا گمان گزرتا ہے بازاروں میں ریلیاں بلکہ لوگوں کے ریلے بہہ رہے ہوتے ہیں۔ پارکس میں محلے بھر کے کوڑے کے ڈھیر ہیں، یا گدھے بندھے ہوتے ہیں۔ ہر کوئی منہ سر لپیٹ کر گزرنے پر مجبور ہے۔ ناچ گانے اور موسیقی سے فوراً اسلام خطرے میں پڑ جاتا ہے، اور کرکٹ فٹ بال وغیرہ کھیلنے سے غیروں کی شباہت اختیار کرنے کا خدشہ موجود رہتا ہے۔

لے دے کر وہی ایک کام ہی بچتا ہے، جس کی فضیلت سے ہم دن دگنی اور رات چگنی ”ترقی“ کر رہے ہیں۔ کچھ سال پہلے تک دیہاتوں میں کھسروں کا ناچ اور شہروں میں مخصوص جگہوں پر وی سی آر پر نیلی پیلی فلمیں دیکھ کر آدھی رات کے وقت شادی شدہ افراد مشکلوں سے آزار بند سنبھالتے گھر تک پہنچتے تھے، اور موقع دیکھ کر ”بھیگی“ رات کی واردات کر کے شاد کام ہو کر سو جاتے تھے۔ اب تو ہر ایک کے موبائل میں مزاج برانگیختہ کر دینے والا مواد موجود ہوتا ہے۔

نتیجہ ہر آنگن میں تیزی سے چنو، منو، گڑیا اور لڈو کے ناموں سے ہونے والے اضافے کی صورت برامد ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کے کچھ علاقوں میں کم عمری کی شادیاں اس کار خیر میں اضافے کی وجہ ہیں، توکچھ علاقوں میں رواجاً دلہن گھر لے آنے کے لئے ایک موٹی رقم دلہن کے باپ کے ہاتھ پر رکھنا پڑتی ہے۔ ایسے افراد اپنی خرچ کردہ پوری رقم وصولنے کے لئے پورا زور لگا کر کشتوں کے پشتے لگا دیتے ہیں۔ نتیجہ ایک ہی زوجہ سے بارہ سے پندرہ نفوس برامد کرنے کی صورت میں نکلتا ہے۔

اگر کوئی بھلا مانس کسی کو سمجھانے کی کوشش کرے تو اسے یہ سننے کو ملے گا کہ ’میاں کیا تمہارے گھر سے کھاتے ہیں؟ رزق کی تنگی کے ڈر سے بچے پیدا نہ کریں؟ اللہ دینے والا ہے جتنے زیادہ ہوں گے اتنا رزق کھلا آئے گا، اجی یہ کفار کی سازش ہے یہ مسلمانوں کی آبادی نہ بڑھنے دو، حتیٰ کہ آبادی کو کنٹرول کرنے کی بات کرنے والے کو یہود کا ایجینٹ تک کہہ دینا عام سی بات ہے۔ ہمارے ملک میں مذہبی رہنماؤں کی بات لوگ زیادہ سنتے ہیں، اور کسی بھی فرقے کے مذہبی رہنماؤں نے خاندانی منصوبہ بندی کی کوششوں کی کبھی حمایت نہیں کی۔

جبکہ بنگلہ دیش میں مذہبی رہنماؤں نے خاندانی منصوبہ بندی کی کوششوں میں بہت تعاون کیا ہے۔ ایک زمانے میں بنگلہ دیش کی آبادی اور آبادی میں شرح اضافہ ہم سے زیادہ تھا، اب وہ سولہ کروڑ تک ہی پہنچے ہیں اور ہم بائیس کروڑ تک پہنچ چکے ہیں۔ حکومتوں نے نام کے محکمے تو بنا دیے لیکن ان کا کام کہیں نظر نہی آتا۔ عرصہ پہلے ”بچے دو ہی اچھے“ کی طرح کے اشتہارات ٹی وی اور اخباروں میں دیکھتے تھے، اب وہ بھی نظر سے کبھی نہیں گزرے۔

حکومتیں شاید ہاتھ کھڑے کر چکی ہیں، لیکن یار لوگ ”لگے رہو منا بھائی“ کی تصویر بنے اپنے اپنے محاذوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ دن رات شادیاں ہو رہی ہیں، اور باراتیں سڑکوں پر رواں دواں ہیں۔ شادی ہال آباد ہیں۔ دن رات زور و شور سے بچے پر بچے پیدا کیے جا رہے ہیں۔ لگتا ہے مشینیں چل رہی ہیں۔ یقین جانیے اس ملک میں نس بندی کی اتنی ضرورت نہیں جتنی بڑی بوڑھیوں اور ماسیوں تائیوں کی زبان بندی کی ہے۔ اتنی ضرورت لوگوں کو ہیلمٹ پہنانے کی نہیں، جتنی کنڈوم پہنانے کی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).