شمالی کوریا نے مذاکرات کے تیسرے دور کو امریکی سنجیدگی سے مشروط کر دیا


شمالی کوریا کے رہنما کِم جونگ ان کا کہنا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مذاکرات کے تیسرے دور کے لیے تیار ہیں مگر یہ تب ہی ممکن ہو گا جب امریکہ اپنا ’رویہ درست‘ کرے۔

شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا نے کم جونگ ان کے اس بیان کو ہفتے کے روز نشر کیا ہے۔

اپنے خطاب میں انھوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر زور دیا ہے کہ وہ ایک ایسے معاہدے کی کوشش کریں جو ’جائز‘ ہو اور دونوں ممالک کے لیے قابلِ قبول ہو۔

یہ بھی پڑھیے

کم جونگ ان نے الیکشن کیوں نہیں لڑا؟

ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ ان کی تاریخی ملاقات

کم جونگ ان سے ملاقات امن کا واحد موقع ہے: ڈونلڈ ٹرمپ

دونوں ممالک کے سربراہان میں ملاقات کا پہلا دور گذشتہ برس سنگاپور میں ہوا تھا۔ تاہم فروری میں ہنوئی میں ہونے والا ملاقات کا دوسرا دور تخفیف جوہری اسلحہ کے معاملے پر آ کر بے نتیجہ ختم ہو گیا تھا۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا کے حکام اپنی اہم ایٹمی تنصیب گاہ کو بند کرنے کے بدلے ملک سے معاشی پابندیاں مکمل طور پر اٹھانے کا تقاضہ کر رہے تھے اور اس مطالبے نے انھیں مذاکرات سے علیحدہ ہونے پر اکسایا۔

تاہم شمالی کوریا کے حکام نے مذاکرات کے خاتمے کی وجوہات کے امریکی بیان کو متنازعہ قرار دیا تھا۔

شمالی کوریا

گذشتہ ماہ شمالی کوریا کے نائب وزیر خارجہ چو سن ہوئی نے امریکہ پر ’غنڈوں کی طرح‘ کا موقف اپنانے کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ امریکہ نے ہنوئی میں ایک ’سنہری موقع‘ ضائع کردیا ہے۔

اپنے حالیہ بیان میں شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کا کہنا تھا کہ سربراہی اجلاس سے ان کے ذہن میں ’ شکوک‘ پیدا ہوئے تھے کہ کیا امریکہ درحقیقت تعلقات میں بہتری چاہتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر امریکہ سنجیدگی سے اور دونوں فریقین کے لیے قابل قبول شرائط کے ساتھ تیسری سربراہی ملاقات کی پشکش کرتا ہے تو ہم اسے ایک اور موقع دینے کے لیے تیار ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ امریکہ ’کا یہ خیال غلط ہے کہ اگر وہ ہم پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالے، تو وہ ہمیں اپنے ماتحت کر سکتا ہیں‘۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ ’جارحانہ‘ مذاکراتی حربے ختم کرے۔

شمالی کوریا

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کے صدر ٹرمپ کے ساتھ ذاتی تعلقات ’بہت اچھے‘ ہیں۔

شمالی کوریا کے سربراہ کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کو اس سال کے آخر تک کا وقت دیتے ہیں کہ وہ اگلے سربراہی اجلاس کے انعقاد کے لیے ایک ’جرات مندانہ فیصلہ‘ کرے۔

جنوبی کوریا کی کیوگنام یونیورسٹی کے شعبہ مشرقِ بعید کے کم ڈنگ یپ نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ کے بیان سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کے لیے امریکہ کے ساتھ بات چیت نہیں کریں گے اور اس کے بجائے وہ ’دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات بڑھانے ہر غور کرسکتے ہیں۔‘

شمالی کوریا کے سربراہ کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایک روز قبل صدر ٹرمپ نے واشنگٹن میں جنوبی کوریا کے صدر مون جئے ان سے مذاکرات کے آغاز میں کم جونگ سے ممکنہ مزید ملاقاتوں پر تبادلہ خیال کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp