پنجاب کے ہیروز اور مذہبی منافرت


گزشتہ دنوں وزیر اطلاعات نے ایک بیان جاری کیا کہ برطانیہ سانحہ جیلیانوالہ باغ پہ معافی مانگے اور ساتھ ہی کوہ نور ہیرے کہ واپسی کا مطالبہ بھی کر دیا۔ جہاں تک تو کوہ نور ہیرے کی واپسی کا تعلق ہے اس پہ تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ آئی ایم ایف کی قسط کے ساتھ آئے گا یا پھر برطانیہ کی طرف سے جاری ہونے والے کسی خیراتی فنڈ کے ساتھ۔ میں تو صرف وزیر صاحب کے سانحے جیلیانوالہ باغ پہ برطانیہ سے معافی مانگنے کی دھمکی نما درخواست پہ اپنی معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

قارئین کرام جیلیانوالہ مشرقی پنجاب کے شہر امرتسر میں واقع ایک باغ کا نام ہے جو سکھ دور میں بنایا گیا تھا۔ 13 اپریل 1919 کو بیساکھی میلے کے سلسلے میں لوگ قریبی شہروں سے بھی یہاں آئے ہوئے تھے جو کہ اس بات سے بے خبر تھے کہ یہاں دفعہ 144 کا نفاذ پے۔ لہذا انگریز حکومت نے جنرل ڈائیر کی کمان میں ان نہتے پنجابیوں پہ گولی چلانے کا حکم دے دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے عورتوں اور بچوں سمیت سیکنڑوں لوگ شہید کر دیے گئے۔ کانگرس کی رپورٹ کے مطابق شہید ہونے والے لوگوں کی تعداد ایک ہزار افراد سے زیادہ تھی۔ یہ واقعہ برطانوی حکومت پہ ایک بد نما داغ کی صورت اختیار کر گیا اور اس کے ساتھ ساتھ اس دلخراش سانحے نے ہندوستان کو آزادی کہ طرف سمت طے کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا۔

ایسے مطالبے کرنے بہت اچھی بات ہے لیکن ان مطالبوں سے پہلے آئیے ایک نظر دیکھتے ہیں کہ کیا ہم ایسا رویہ پنجاب میں خصوصا تحریک آزادی کے وقت غیر مسلم پنجابیوں کو ان کی حیثیت کے مطابق اپنے دلوں میں جگہ دیتے ہیں؟ مثال کے طور پر کیا ہم بھگت سنگھ کو اپنا قومی ہیرو مانتے ہیں؟ جیلیانوالہ باغ جو کہ اب پاکستان میں شامل بھی نہیں ہے لیکن صرف اور صرف اپنی تاریخی اور جغرافیائی شناخت کے حوالے سے ہی اس سانحے کے ذمہ داران سے معافی کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن اس کے برعکس بھگت سنگھ تو پاکستانی پنجاب کی موجودہ زمین کا بیٹا تھا، بھگت سنگھ بھی تو اسی انگریز راج کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے جان سے گزرا، جس انگریز سے ہم سانحے جیلیانوالہ باغ پہ معافی مانگنے کا کہہ رہے ہیں۔ اس نے تو انگریز سے آزادی حاصل کرنے کی بات کی تھی جس کی پاداش میں اسے سولی چڑھایا گیا۔ اس انقلابی نوجوان کے دل میں اسی جیلیانوالہ باغ کے سانحے نے انگریز سرکار کے خلاف نفرت پیدا کی۔

لائل پور موجودہ فیصل آباد کے اس حریت پسند پہ لاہور میں بم دھماکوں کے علاوہ شہر کے اسسٹنٹ پولیس آفسر کو گولی مارنے کا بھی الزام تھا۔ لہذا 23 مارچ 1931 کو سر زمین پنجاب کے اس نوجوان کو لاہور میں پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ پھانسی سے پہلے جب بھگت سنگھ نے فئیر ٹرائیل نا ملنے پہ بھوک ہڑتال کی تو قائد اعظم محمد علی جناح نے جو اس وقت ہندوستان کی مرکزی کونسل کے منتخب ممبر تھے اس کے لئے بھرپور آواز اٹھائی۔ قائد اعظم رحمت اللہ علیہ کا بھگت سنگھ کے حق میں اس زور سے بولنا اس بات کی دلیل تھی کہ مقامی ہیروز قومی اور بڑے ہیروز ہوتے ہیں چاہے وہ کسی بھی مذہب کے پیرو کار ہوں۔ لیکن افسوس ہم نے قائد کی ایسی سنہری تعلیمات کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔

وطن عزیز میں یہ ہمیشہ سے ہی المیہ رہا ہے کہ یہاں ہیرو بھی مذہب ہی کی بنیاد پہ بنتے اور مانے جاتے ہیں۔ دل پہ ہاتھ رکھ کر سوچئے کیا ہماری نصابی کتب میں ایسے بہادر حریت پسندوں کا ان کے شایان شان ذکر موجود ہے؟ کیا ہم مذہب کو ایک طرف رکھتے ہوئے ان شخصیات کو دل و جان سے اپنے قومی ہیرو مانتے ہیں؟ قائد اعظم کی شخصیت کے علاوہ باقی جو ہمارے قومی ہیروز کی ایک لمبی فہرست ہے کیا اس میں سکھدیو سنگھ، بھگت سنگھ، جوگندر ناتھ منڈل، سر آغا خان اور پروفیسر عبدالسلام جیسی ہستیوں کی کوئی مناسب پذیرائی موجود ہے؟

اگر ہم اپنے ملک میں موجود پنجاب کی تاریخی شخصیات کو ان کا جائز مقام دینے کو تیار نہیں تو پھر ہم کس منہ سے برطانیہ سے اس سانحے پہ معافی مانگنے کا کہہ رہے ہیں جو انڈین پنجاب میں رو نما ہوا جس کا ہمارے موجودہ ملک سے کوئی تعلق تک نہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں بھی کم و بیش اسی طرح کا رویہ اپنایا جاتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو جو باہم مل کر پنجاب کے ہیروز اور تاریخی واقعات کو اجتماعی طور پر اپنی وراثت میں لیا جائے۔ جو بداعتمادی کی خلیج پیدا ہوئی تھی اسے پاٹنے کی کوشش کی جائے کیونکہ نا ہی ہمسائے بدلے جا سکتے ہیں اور نا ہی تاریخ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).