دیس میں پردیس کے رنگ


وطن سے باہر گئے تو پتہ چلا کہ یہ دھرتی جسے ہم وطن عزیز کہتے ہیں یہ محض لفاظی نہیں بلکہ یہ سچ میں بہت عزیز ہے۔ اور اس کی ہرچیز، ہر رنگ بہت پیارا، بہت خوبصورت ہے۔ دیارِ غیر میں سب غیر تھے کوئی ایک اپنا تھا تو وہ اپنے ملک کا نام تھا۔ جسے ہم اپنے نام سے بھی پہلے بتاتے۔ پردیس میں دیس کو تو یاد کیا ہی لیکن وطن سے وابستہ جڑی باتیں، چیزیں بھی بہت یاد آئیں۔ سب سے پہلے تو پاکستانی کھانوں کو یاد کیا۔ وطن سے دور وہ کھانے بھی اچھے لگنے لگے جنھیں چکھنے کے لئے اماں عمر بھر ہر حربہ استعمال کرتی رہیں۔ لیکن ہم نے چکھ کر نہ دیے۔

ہمیں حیرانی ہوئی کہ وہاں صفائی کا اتنا خیال رکھا جاتا ہے جتنا کہ جھوٹ بولیں۔ سڑکوں اور پارکوں میں کہیں بھی کچرا نظر نہیں آیا۔ کوئی بھی سڑکوں پر کھائی اشیاء کے خالی ریپر نہیں پھینکتا۔ کھائی چپس کے خالی ریپر اور جوس کے خالی ڈبے بیگ میں رکھتے عجیب بے بسی کا احساس ہوا۔ اور اپنا وطن جی بھر کے یاد آیا جدھر جہاں چاہیں، جب چاہیں کچرا پھینک دیتے ہیں اور کوئی کچھ نہیں کہتا۔ دفاتر کا حال ایسا کہ ٹریفک جام کا بہانہ بنا کر ہمارے سرکاری بابوؤں کی طرح کوئی دفتر لیٹ نہیں پہنچتا۔

آفس ٹائمنگ میں کوئی جگری اور غیر جگری دوستوں کو چائے پلاتا ہے نہ دوستوں کو دو گھنٹے موبائل پر یہ بتانے میں صرف کرتا ہے کہ اس پر کام کا اتنا بوجھ ہے کہ سر کھجانے کی فرصت نہیں۔ وہاں ٹریفک اتنی رواں ہے کہ ٹریفک جام کا بہانہ بھی نہیں چل سکتا۔ اپنے وطن کی یہ عیاشی تو ہے نا کہ ہمارے بھائی متوقع بھابھی کے ساتھ ہونے کی بنا پر گھر لیٹ پہنچیں یا موجودہ بھابھی کی ڈانٹ کھا کر، گھر کے کام کرنے کی وجہ سے دفتر لیٹ پہنچیں تو اکثر ٹریفک جام کابہانہ بنا لیتے ہیں۔

یعنی ہر جگہ یہ بہانہ کام آتا ہے۔ لیکن ادھر یہ بہانہ نہیں چل سکتا۔ سڑکوں کی حالت اتنی بہتر کے چھ گھنٹوں کے طویل سفر کے دوران ہم دھچکوں کا انتظار ہی کرتے رہے۔ لیکن کوئی گڑھا آیا، نہ دھچکا لگا اور ہم ہموار سڑک کی ناہمواری آنے کا انتظار کرتے آرام سے ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچ گئے۔ لیکن ایک اور چیز جسے بہت زیادہ محسوس کیا وہ ڈسپلن کی خلاف ورزی تھی۔ پردیس میں جاکر پتہ چلا کہ ڈسپلن نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔

کوئی بھی کام ہو وہاں لائن میں لگنا پڑتا ہے۔ ہم نے کہاں دیکھا تھا یہ سب بھلا۔ سو ان باتوں کی وجہ سے وطن سے دوری کا احساس شدت اختیار کر گیا۔ خیر جیسے تیسے وطن روانگی کا دن آیا تو پتہ چلا فسادی پڑوسی کی وجہ سے پاکستان جانے والی تمام پروازیں منسوخ ہو چکیں۔ چند دن بعد کچھ شہروں کی پروازیں کھلیں تو ہم پی آئی اے کے آفس گئے تاکہ جس شہر کی بھی فلائٹ مل جائے ہم اسی کے لئے سیٹ کنفرم کروالیں۔ پی آئی اے آفس گئے تو پتہ چلا وہاں ہمارے علاوہ بھی بہت سارے محب وطن موجود تھے جو جلد از جلد وطن پہنچنا چاہتے تھے۔

چونکہ سب محب وطن پاکستانی تھے تو پھر آپ سوچ سکتے ہیں کہ وہاں کا ماحول کیساہوگا۔ نو بجے دفتر کھلا تو نمبر کے حصول کے لئے دکھم پیل شروع ہوگئی۔ ایسی دھکم پیل جس میں کان پڑی اواز سنائی دے نہ زمین پہ گرتا انسان دکھائی دے۔ ایک دوسرے کوپھلانگتے، دھکے دیتے، میز کے اوپر سے چیزیں گراتے اپنی مدد آپ کے تحت نمبر والی پرچی کھنچنے میں مصروف۔ کسی کی دستار گئی تو کسی کی پاپوش۔ یہاں عملہ کی قطعاً ضرورت نہیں تھی سو عملہ بھی آگے نہیں آیا۔

جن کے پاس نمبر آچکا تھا وہ لوگ سب سے پہلے اپنا نام لکھوانا چاہتے تھے۔ سو ادھرکا منظر بھی الگ بہار دکھاتاتھا۔ پہلے نمبر والا چیخ رہا تھا اور دسویں نمبر والا اپنا نام لکھوا کے خوش ہورہا تھا۔ ادھر کینیڈا سے آئی خاتون اس دھکم پیل کا حصہ بننے سے گریز کر رہی تھی۔ کسی درد مند نے مخلصانہ مشورہ دیا بی بی آپ بھی اگر سیٹ اوکے کروانا چاہتی ہیں تو بن جائیے اسی منظر کا حصہ۔ لیکن وہ بیٹھی سب کو یوں کوستی رہیں جیسا کہ ان کا پاکستان سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔

خیر وہ جو بھی سوچیں لیکن بھلا ہو مودی کی ذہنی تنگی، جارحیت پسندی اور امن دشمنی کا جس نے پلوامہ حملے کے ذریعے انڈین ائیر فورس کی قابلیت کا پول کھول دیا، انڈین طیارے مار گرا کر پاکستانی فورس نے دنیا کوبتادیا کہ کوئی بھی دھوکے میں نہ رہے کہ پاکستانی فورس دشمن سے بے خبر ہے بلکہ دنیا یاد رکھے پاکستانی فوج ہر دم چوکنا اور مضبوط ترین فوج ہے۔ جو ہر وقت اپنے دشمن کو شکست دے سکتی ہے۔ انڈیا کی جارحیت کی بدولت پاکستان نے انڈین ایئر فورس کے کیپٹن ابھینندن کو واپس کر کے اپنی امن پسندی کا ثبوت دیا۔

تو وہیں ہمیں پردیس میں دیس کے رنگ دیکھنے کو ملے۔ ورنہ میں ان رنگوں کے بنا اداس ہو گئی تھی۔ مجھے چائے کی شدید طلب ہو رہی تھی۔ آس پاس کوئی ہوٹل نہ تھا۔ سو دفترکے کچن کو گھر ہی کا کچن سمجھ کر چائے بنائی۔ اپنے ساتھ بیٹھے ایک دوانکل کو بھی پیش کی۔ جس سے وہ انکل جن کو چائے ملی وہ خوش ہوئے لیکن جو اس میزبانی سے محروم رہے وہ خاصے نالاں نظر آئے۔ اور میری اس بے تکلفی سے پاکستانی نژاد کینڈین خاتون بھی مجھ سے غیر متاثر ہوئیں۔

ایک کپ چائے پینے کے بعد جب میں دوسرا کپ بھی بنا لائی تو وہ خاتون کہے بنا رہ نہ سکیں۔ ”آپ پھر چائے بنا لائیں“ میں نے بھی مسکرا کر کہا اپنے وطن کا آفس ہے تکلف کیسا۔ آپ کو بھی بنا دوں؟ جس کا انھوں نے بس تیکھی گھوری سے جواب دیا۔ چائے سے فراغت کے بعد مینجر کے دفتر میں کنفرمیشن کے لئے گئی کہ ”اسلام آبادوں آئی اے فیکس“ مطلب سیٹ اوکے ہوگئی یا نہیں ابھی۔ تو کینیڈین خاتون بھی میرے ساتھ ہولیں۔ لیکن ہم سے پہلے بہت سارے افراد وہاں موجود تھے۔

ہمارے بھائیوں نے خواتین کے احترام میں اپنی کرسی پیش کر دی۔ میں نے بھی شاہی کرسی سمجھ کر قبضہ کرنے میں دیر نہ لگائی۔ لیکن مجھے حیرت ہوئی وہ معزز خاتون اپنی سیٹ کنفرمیشن کروانے کی بجائے لوگوں کے لائن میں نہ لگنے کی شکائیت لگانے بیٹھ گئیں۔ کہ سر ادھر کوئی لائن نہیں بنا رہا، کام کیسے ہوگا، ان سے لائن بنانے کو کہیں۔ لیکن دوسری طرف بھی مینجر اپنا پاکستانی بھائی تھا۔ مصروف انداز میں بولے۔ آپ فکر نہ کریں ہوجائے گا کام۔

ایک پٹھان بھائی مجھے دیکھتے ہوئے بولا ”صاب ادھر باہر سب چائے بنا بنا کے پی رہا ہے“ مینجر نے اسے گھور کر دیکھا اور بولا تو۔ پٹھان بھائی لجاحت سے بولا، ام بھی ایک کپ بنا کر پی لے۔ مینجر صاحب اپنی کرسی کو دھکیلتے اٹھے ”میں یہ سب بتانے کے لئے بیٹھا ہوں، جارہا ہوں میں“ مینجر کا غصہ اور میری ہنسی ایک ساتھ امڈی۔ لیکن ہجوم نے باہر جانے کو راستہ ہی نہ دیا اور کندھوں سے پکڑ کر واپس کرسی بٹھایا۔ مینجر بیزار تھا، عملہ بے نیاز اور کینیڈین خاتون پریشان کہ کام کیسے ہوگا۔

یہی بات بار بار دہراتیں۔ آخر عملہ کا ایک فرد بولا ہو جائے گا کام، بی بی آپ تو چپ کرو۔ یعنی ثابت ہوا کہ غلط وہ خاتون تھیں ہم نہیں۔ سیٹ کنفرمیشن پیپر لیتے وقت مینجر صاحب کو بتایا سر کچن سے چائے میں بنا بنا کے پی رہی تھی۔ وہ ہلکا سا مسکرائے اور پیار سے بولے کوئی بات نہیں لٹل سسٹر۔ سیٹ کنفرم کروانے کے بعد واپس ہوٹل پہنچے۔ رات دو بجے ائیر پورٹ کے لئے نکلنا تھا۔ اب ائیر پورٹ پر بورڈنگ کرواتے وقت ایک بار پھر پاکستانی پابندی کی زد میں آچکے تھے۔

ذرا سا لائن سے باہر ہونے پر لوگوں کو جو سیکورٹی والوں سے جھاڑ پڑی تو پی آئی اے کے دفتر کا منظر یاد آگیا۔ ہائے کیا چیز ہے اپنا وطن اور اپنے لوگ۔ وہاں کتنا ہنگامہ مچا لیکن کسی نے بھی اس طرح آنکھیں نکال کر لائن بنانے کو نہ کہا۔ لیکن خوشی کی بات کہ بورڈنگ ہونے کے بعد سب پاکستانی آزاد تھے۔ اور طیارے میں سوار ہوتے وقت وہی ہڑبونگ مچ چکی تھی جو خالص پاکستانی مزاج کا حصہ ہے بیچ میں چند ایک ایسے تھے جن پر تھوڑا پڑھ کر زیادہ فرنگیوں کا رنگ غالب آچکا تھا وہ اس دھکم پیل سے ذرا بیزار نظر آتے تھے۔

ہر کوئی پہلے سوار ہونا چاہتا تھا جیسا کہ جہاز انھیں چھوڑ کر نہ چلا جائے۔ لیکن طیارے میں سوار ہوتے وقت جو افراتفری تھی اس سے کہیں زیادہ اترتے وقت تھی۔ جہاز ابھی رن وے پر دوڑ رہا تھا کہ مسافر lage shelf سے سامان اتارنا شروع ہو چکے تھے۔ طیارے میں سب سے پیچھے بیٹھے مسافروں کو سب سے پہلے باہر جانا تھا۔ اور سب سے پیچھے والوں کو سب سے پہلے کیسے نکلنا ہے یہ تو سب پاکستانیوں ہی کو پتہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).