سنہ 2024 کا پاکستان کیسا ہو گا؟


بس اتنا یاد ہے کہ میں ہوشربا مہنگائی اور اپنی قلیل تنخواہ کے بارے میں سوچتے ہوئے موٹر سائیکل چلا رہا تھا۔ اچانک موٹر سائیکل ایک گائے سے ٹکرا گئی جو سڑک پر چہل قدمی کر رہی تھی۔ میں سڑک پر گرا اور دماغ پر اندھیرا چھا گیا۔ آنکھ کھلی تو میں ایک ہاسپٹل میں تھا۔ میری بیوی میرے بیڈ کے قریب ایک کرسی پر بیٹھی تھی۔ مجھے ہوش میں آتا دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ یہ خوشی کے آنسو تھے۔

”شکر ہے آپ کو ہوش آ گیا۔ “ اس کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔

میں نے اٹھنے کی کوشش کی تو اس نے منع کر دیا ”ابھی آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔ “ فوراً ڈاکٹرز اور نرسز نے مجھے گھیرے میں لے لیا۔ وہ سب ایسے خوش ہو رہے تھے جیسے کوئی بہت بڑا واقعہ رونما ہوا ہو۔ شام تک مجھے گھر جانے کی اجازت مل گئی۔ میں ہاسپٹل کی صفائی اور عملے کی مستعدی پر حد درجہ حیران تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے میں کسی یورپی ملک کے ہسپتال میں ہوں۔ بہر حال بیوی کے ساتھ چلتے ہوئے باہر آیا تو پارکنگ میں ایک بی ایم ڈبلیو گاڑی کھڑی تھی۔

”بیٹھئیے ڈرائیو میں کروں گی۔ “ نگار نے کہا۔ ”یہ کس کی گاڑی ہے میری موٹر سائیکل کہاں ہے؟ “ میں نے حیرت سے کہا۔ ”وہ تو میں نے بیچ دی یہ ہماری گاڑی ہے میں نے خریدی ہے۔ “

”تمہارا کوئی پرائز بانڈ نکلا ہے کیا؟ “

”نہیں تو! یہ تو میں نے اپنی تنخواہ سے خریدی ہے۔ “ وہ بولی۔ میں حیران تھا کہ سر پہ چوٹ تو مجھے لگی تھی اور بہکی بہکی باتیں وہ کر رہی تھی۔ بہرحال ہم گاڑی میں بیٹھے اور وہ اسے مین روڈ پر لے آئی۔ سڑک کے دونوں طرف بلند و بالا شاندار عمارتیں تھیں اور صفائی کا یہ عالم تھا کہ سڑک پر تنکا تک نظر نہ آتا تھا۔ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ لندن ہے یا پیرس یا شاید دوبئی میں نے تو ان شہروں کی تصویرں بھی کم ہی دیکھی تھیں۔ آخر میں نے پوچھ ہی لیا کہ ہم کس ملک میں ہیں اور میں کتنی دیر بے ہوش رہا ہوں۔ نگار کے جواب نے میرے ہوش اڑا دیے۔

”آپ کوما میں تھے اور آپ کو پانچ سال بعد ہوش آیا ہے ویسے ہم پاکستان میں ہی ہیں اور یہ شہر خانیوال ہے۔ “

میری آنکھیں حیرت سے پھٹنے لگیں۔ پھر سوچا کہ نگار مذاق کر رہی ہے۔ ایک خوبصورت کوٹھی کے پورچ میں گاڑی روک کر اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”آئیے نئے گھر میں۔ “ موسم گرم تھا لیکن گھر کے اندر داخل ہوئے تو ٹھنڈک کا احساس ہوا۔

”اب تو ہمارے ہاں شاپنگ مال، دفاتر، سکول، کالج اور گھر سب سینٹرلی ائیر کنڈیشنڈ ہوتے ہیں سو یہ گھر بھی ہے۔ “ نگار نے شاید میری سوچ پڑھ لی تھی۔

میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا لہٰذا خاموش رہا۔ میں نے سوچا آرام کرنا چاہیے۔ شاید میرا دماغ صحیح طور سے ٹھکانے پر نہیں آیا۔ کھانا کھا کر میں سو گیا۔ اگلی صبح میں نے ناشتے کے بعد نگار سے کہا کہ میں باہر گھومنا پھرنا چاہتا ہوں۔ ”یہ تو بہت اچھی بات ہے، آپ گاڑی لے جائیں۔ “ نگار نے فوراً کہا۔ میں نے گاڑی کی چابی لی تو نگار نے میری جیب میں کچھ روپے بھی ٹھونس دیے۔ سو سو روپے کے نوٹ تھے۔ بہر حال میں گاڑی کو سڑک پر لے آیا۔ ابھی میں شاندار سڑکوں اور فلک پیما عمارتوں کو دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ نظر پیٹرول کی سوئی پر پڑ گئی۔ حیرت کی جگہ پریشانی نے لے لی۔

پیٹرول بہت کم تھا۔ میرے پاس تو پیسے بھی بہت کم تھے۔ سوچا کہ کسی پیٹرول پمپ سے دو تین لیٹر پیٹرول ڈلوا کر واپس گھر جاتا ہوں۔ اسی اثنا میں ایک پیٹرول پمپ نظر آیا۔ میں نے گاڑی ادھر موڑ دی۔ وہاں ایک خوش شکل گوری دیکھ کر حیرت آمیز خوشی ہوئی۔ سوچا کہ شاید اپنی گاڑی میں پیٹرول ڈلوانے آئی ہو گی۔ جب میں نے گاڑی روکی تو وہ لپک کر قریب آ گئی۔ ”سر آپ کتنے لیٹر پیٹرول ڈالنا مانگتا؟ “ اس نے انگلش لہجے میں پوچھا۔ ”میں نے حیرت سے ادھر ادھر دیکھا۔ دوسری طرف ایک بوڑھا گورا بھی ایک کالے کی گاڑی میں پیٹرول ڈال رہا تھا۔

”تم کون ہو؟ “ میرے منہ سے نکلا۔

”میں ادھر جاب کرتی۔ “ وہ بولی۔

”کتنے روپے لیٹرہے؟ “ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کیونکہ آخری دفعہ میں نے سو روپے لیٹر پیٹرول ڈلوایا تھا۔

”بیس پیسے فی لیٹر۔ “ گوری نے انگلی سے بورڈ کی طرف اشارہ کیا جہاں واقعی یہی قیمت لکھی تھی۔ حیرت سے ابلتی آنکھوں کے ساتھ میں نے بورڈ کو بار بار پڑھا اور پھر کہا۔ ”ٹینکی فل کر دو۔ “ چھ روپے میں ٹنیکی فل ہو گئی۔ وہاں سے آگے بڑھا ایک خوبصورت مارکیٹ کی پارکنگ میں گاڑی روک کر میں نے سوچا کہ پیدل گھوم پھر کر ماحول کا جائزہ لیا جائے۔ گاڑی سے نکلا ہی تھا کہ ایک نوجوان گورا نظر آیا۔

”بوٹ پالش سر۔ “ اس نے میرے جوتوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ گورے کے کپڑے پھٹے پرانے تھے اور اس کے ہاتھ میں پالش کی ڈبیا اور برش تھا۔ مجھے فوراً نصابی کتابوں میں پڑھے ہوئے جملے یاد آ گئے کہ گوروں نے سازشیں کر کے حکومت چھین لی تھی اور پھر سو سال برصغیر پر حکومت کرتے رہے۔ میں نے سوچا ان گوروں سے اسی طرح انتقام لینا چاہیے۔ لہٰذا فوراً جوتے اس کے حوالے کر دیے۔ اس نے بڑی محنت سے پالش کر کے جوتے چمکا دیے۔

”کتنے پیسے ہوئے؟ “ میں نے پوچھا۔

”دو پیسے سر۔ “ وہ بولا۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور دس پیسے کا سکہ اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ ”کیپ دا چینج۔ “ میں نے بے نیازی سے کہا اور گورے کی آنکھیں یوں چمکنے لگیں جیسے بہت بڑی دولت ہاتھ لگی ہو۔ ”تھینک یو“ کہہ کر وہ دوسرے آدمی کی طرف لپکا۔ میں بھی آگے بڑھ گیا۔ اب غور کیا تو معلوم ہوا کہ اس چھوٹے سے شہر میں گورے اور گوریاں بکثرت تھے۔ کہیں کوئی گورا چھابڑی لگائے بیٹھا تھا کوئی سبزی بیچ رہا تھا۔ کوئی ریڑھی پر پیاز بیچ رہا تھا تو کوئی فٹ پاتھ پر بیٹھا بنیانیں بیچ رہا تھا۔

میں نے گورے کا لفظ یہاں غیر ملکی کے طور پر استعمال کیا ہے کیونکہ چہرے سے وہ مختلف قومیتوں کے دکھائی دیتے تھے۔ ان میں امریکن، جرمن، فرینچ، آسٹریلوی اور دیگر یورپین سب شامل تھے۔ چلتے چلتے میں ارم ہوٹل کے پاس آ گیا جہاں کسی زمانے میں ٹیکسی سٹینڈ ہوا کرتا تھا لیکن اب منظر ہی کچھ اور تھا۔ وہاں بیسیوں ہیلی کاپڑ کھڑے تھے۔ میں نے ایک راہگیر سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟

”یہ ہیلی کاپڑ سٹینڈ ہے جناب ٹیکسی کا رواج تو کئی برس پہلے ختم ہو گیا تھا۔ ہیلی کاپٹر سستا پڑتا ہے اور سڑکوں پر ٹریفک جام بھی نہیں ہوتا۔ “ اس نے وضاحت کی۔

اتنے میں ایک ویگن قریب سے گزری تو مجھے دیکھ کر رک گئی۔

”چوک سنگلاں وال، چوک گپی والا، پیپلز کالونی، ریلوے اسٹیشن، اونلی ون سواری۔ “

گورا کنڈیکٹر چیخ چیخ کر آوازیں لگا رہا تھا۔ میں پلٹ کر اپنی کار کی طرف آیا ایک دن میں حیرت کے اتنے جھٹکے کافی تھے۔ کار چلاتے ہوئے پھر سوچوں میں اتنا گم تھا کہ سگنل توڑ دیا۔ آگے پولیس والے کھڑے تھے۔ انہیں دیکھ کر خیال آیا کہ اب تو پکا لُٹ جاؤں گا۔ ایک پولیس والے نے رکنے کا اشارہ کیا۔ میں نے سوچا کہ گاڑی روک کر ہاتھ اٹھا کر باہر نکلتا ہوں کہیں وہ گولیاں نہ چلا دے مگر دیکھا کہ وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔ کہیں یہ میری گاڑی میں شراب کی بوتل یا ہیروئین کی پڑیا رکھ کر منشیات کا کیس نہ بنا دے۔ میں نے دوسرے رخ سے سوچا۔

”سر آپ پریشان ہیں شاید اسی لئے سگنل پر بھی دھیان نہ دے سکے مجھے بتائیے میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں۔ “ اس نے ہمدردی سے کہا۔

میں نے سوچا مذاق کے موڈ میں ہے۔ ”در اصل میری جیب میں بہت کم پیسے ہیں۔ “ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ”پیسے کم ہیں؟ آپ مجھے اپنا مسئلہ بتائیے ہم آپ کی ہر ممکن مدد کریں گے۔ “ اس نے کہا۔

”فی الحال مجھے گھر جانا ہے۔ “ میں نے کہا۔

”تو ضرور جائیے بس ذرا دھیان سے گاڑی چلائیے گا۔ “ اس نے بڑی محبت سے کہا۔ میں گاڑی آگے بڑھاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کیا یہ ہمارے ملک ہی کی پولیس ہے۔ گھر پہنچ کر میں نے بیوی سے کہا جلدی سے ایک گلاس پانی دو اور ٹی وی آن کر دو۔

”خیر تو ہے، پ اتنے پریشان کیوں ہیں؟ “ نگار نے پوچھا۔

”سب کچھ بدلا ہوا ہے۔ مجھے لگتا ہے میں کسی اور ملک میں ہوں۔ “

”اوہ! غلطی میری ہے۔ مجھے پہلے ہی بتا دینا چاہیے تھا۔ سنئیے 2019 میں پاکستان کے سمندر سے تیل کا دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ مل گیا تھا۔ اس کے بعد وزیرِ اعظم یعنی ہمارے کپتان نے ملک کی کایا ہی پلٹ دی۔ ہر پاکستانی کو نیا گھر مل گیا۔ کروڑوں نوکریاں پیدا ہو گئیں اتنے تو پاکستانی بھی نہیں تھے۔ ڈالر کا ریٹ اتنا گرا کہ اب ایک روپے میں 140 ڈالر ملتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے لوگ بھوکوں مر رہے تھے پھر لاکھوں کروڑوں غیر ملکی یہاں نوکریاں کرنے آ گئے تا کہ چار پیسے کما سکیں۔ کوئی ابلے انڈے بیچتا ہے، کوئی مرغیاں پالتا ہے، کوئی ٹھیلا لگاتا ہے۔ “ نگار نے وضاحت کی۔

”پانچ سال میں تو الیکشن بھی ہوئے ہوں۔ اب کس پارٹی کی حکومت ہے؟ ملک کا وزیر اعظم کون ہے؟ “ نگار میرا سوال سن کر ہنسنے لگی۔

”کیسا الیکشن اور کون سا وزیر اعظم۔ وزیر اعظم بے چارہ تو بہت مجبور ہوتا ہے۔ اسی لئے ہم نے اپنے کپتان کو بادشاہ بنا لیا۔ اب ملک میں جمہوریت نہیں بادشاہت ہے۔ ہمارے بادشاہ سلامت اپنے بنی گالا محل میں روزانہ دربار لگاتے ہیں اور فریادیوں کے مسائل حل کرتے ہیں۔ گذشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو دوسری مدت کے لئے صدر بنے ہیں کشکول اٹھا کر مدد مانگنے آئے تھے کیونکہ ان کا ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ ہمارے بادشاہ سلامت نے ان پر پابندیاں لگاتے ہوئے مدد کا وعدہ کیا اور شاہی مسخروں سے ان پر جگتیں بھی لگوائیں۔

پرانی کابینہ کے کئی وزیر اب دربار کے شاہی مسخرے بن چکے ہیں۔ ”نگار نے یہ بتاتے ہوئے ٹی وی آن کیا تو وہاں خبریں چل رہی تھیں۔ باشاہ سلامت کپتان ہیروں جڑا سونے کا تاج پہنے شاہی تخت پر براجمان تھے اور صحافیوں کو مثبت رپورٹنگ پر سراہتے ہوئے تیل، بجلی اور گیس کی قیمتیں مذید کم کرنے کے بارے میں بتا رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر ایک بار میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ اس بار آنکھ کھلی تو کیلنڈر پر 2019 کی تاریخ تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).