دہشت گردی پھر لوٹ آئی


گزشتہ روز یعنی گیارہ اپریل کے دن بلوچستان میں دہشت گردی کے دو واقعات ہوئے۔ دہشت گردی کا پہلا بڑا واقعہ گیارہ اپریل کی صبح کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی میں ہوا۔ یہ واقعہ ہزار گنجی کی ہول سیل فروٹ اور سبزی مارکیٹ میں ہوا۔ اس مارکیٹ سے ہزارہ کمیونٹی کے تاجران اور دکانداروں کے لئے مال سپلائی کیا جاتا ہے۔ یہاں پر دھماکے میں 21 افراد جاں بحق ہوئے۔

اس کے علاوہ پچاس افراد زخمی ہوئے جن میں کچھ افراد کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔ دوسرا حملہ چمن میں مال روڈ پر ہوا جہاں موٹر سائیکل میں نصب بم پھٹا جس سے دو افراد جاں بحق اور پانچ زخمی ہوگئے۔ بلوچستان میں کئی مہینوں کے بعد دہشت گردی کا عفریت ایک بار پھر لوٹ آیا ہے۔ بیچاری ہزارہ کمیونٹی پھر احتجاج پر ہے۔ ایک بار پھر دھرنے پر بیٹھ گئے ہیں۔ ڈی آئی جی کوئٹہ عبدالرزاق کا کہنا ہے کہ ہزار گنجی دھماکے میں 20 افراد جاں بحق ہوئے جن میں سے 9 افراد کا تعلق ہزارہ کمیونٹی سے تھا۔ ایک ایف سی کا جوان بھی جاں بحق ہوا جبکہ باقی دس افراد غریب مزدور اور دکاندار تھے۔

بقول ڈی آئی جی دھماکا خیز مواد آلو کی بوری میں چھپایا گیا تھا۔ نشانہ ہزارہ کمیونٹی کے لوگ تھے۔ جبکہ دوسری طرف بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیا اللہ کا کہنا ہے کہ کسی خاص کمیونٹی کو ٹارگٹ نہیں کیا گیا۔ لیکن مرنے والوں میں اکثریت ہزارہ افراد کی تھی۔ کیا کمال بیان ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ کیسے بے حس لوگ ہیں جنہیں وزیر لگادیا گیا ہے۔ ساتھ وزیر موصوف نے یہ بھی فرمایا کہ یہ خود کش حملہ تھا۔ ہزارہ کمیونٹی کے افراد مارکیٹ میں قافلے کی شکل میں آئے تھے۔ گاڑیوں کے اس قافلے کے آگے اور پیچھے پولیس اور ایف سی کی گاڑیاں تھی۔ کل گیارہ گاڑیاں تھی جن میں 55 افراد سوار تھے۔

جب یہ قافلہ ہزار گنجی مارکیٹ میں داخل ہوا تو پولیس نے دائرہ بڑھا دیا تھا۔ چاروں اطراف پولیس اور ایف سی تھی۔ اب ایسے ماحول میں کیسے خود کش حملہ ہوسکتا تھا؟ سوال یہ بھی ہے کہ جب خود کش حملہ ہوا تو ایسے وقت میں ہی کیوں ہوا جب ہزارہ کمیونٹی کے افراد خریداری کررہے تھے؟ اس کا مطلب ہے حقیقت میں ٹارگٹ ہزارہ شیعہ ہی تھے؟

وہی ہوا جو ہوتا ہے۔ وزیر اعظم نے رپورٹ طلب کر لی۔ وزیر اعلی بلوچستان نے رپورٹ طلب کر لی۔ سب نے مذمتیں کی۔ مالی امداد کا اعلان کیا اور سرکاری خرچ پر علاج؟ بلوچستان جسے سیف سٹی پروجیکٹ کے نظریے سے دیکھا جاتا ہے وہاں سی سی ٹی وی کیمروں کی شارٹیج ہے۔ وہ کیمرے جو ہر بازار سے مل جاتے ہیں وہ حکومت خرید نہیں سکتی لیکن مرنے والوں کی مالی امداد کرسکتی ہے؟ کیا کمال پالیسی ہے؟

یقین دہانیاں کرادی گئی ہیں۔ ہزارہ والے دھرنے پر بیٹھ گئے ہیں۔ کہا جارہا ہے دہشت گردوں کو عبرت ناک سزا ملے گی۔ حکمرانو، کچھ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم سے سیکھ لو۔ سیکھو کہ کیسے بدحالوں کو گلے لگایا جاتا ہے؟ کیسے دلاسا دیا جاتا ہے؟ کیسے دہشت گردوں سے نمٹا جاتا ہے؟ اور کچھ نہیں تو ہزارہ والوں کو ایک ٹرک ٹشو کا بھجوادو تاکہ وہ اپنے اآنسو پونچھ سکیں۔ وہ خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ ان کے قبرستان شہیدوں سے بھر گئے ہیں ان کے گھر برباد اور قبرستان آباد ہورہے ہیں اور تم صرف یقین دہانیاں کرارہے ہو۔

ہزارہ کمیونٹی کے ہر گھر کا ایک یا دو فرد ان دھماکوں میں جاں بحق ہوئے۔ ہزاروں ہزارہ کمیونٹی کے افراد قتل ہوگئے اور اب تک تمہارا مذمتوں کا کاروبار بند نہیں ہوا۔ وہ مار کے چلے جاتے ہیں۔ ان کے بندے مررہے ہیں۔ لیکن ریاست اور ریاستی ادارے اب بھی سنجیدہ نہیں۔ ہزارہ کمیونٹی کے لوگ مررہے ہیں اور ہمارے حکمران صرف باتیں کررہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).