پشاور میٹرو سے گزرتی گیس پائپ لائن اور بکاؤ میڈیا


12 اپریل کو انگریزی اخبار میں زیر تعمیر پشاور بی آر ٹی کے ایک انڈر پاس کی تصویر شائع ہوئی جس کے بعد سوشل میڈیا پر پراپیگنڈے کا طوفان آ گیا۔ بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کی اس تصویر کو بلا مبالغہ لاکھوں بار فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ کے ذریعے شیئر کیا گیا۔ پشاور میٹرو جیسے عوامی فلاحی منصوبے کے خلاف یہ سوشل میڈیائی پراپیگنڈہ شروع کرنے والوں کا مقصد وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا توا لگانے اور سستی توجہ حاصل کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔

پراپیگنڈے کا یہ طوفان اتنا شدید تھا کہ اس سے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی متاثر ہوئے۔ سوشل میڈیا پر متحرک تحریک انصاف کے حامیوں نے چپ سادھ لی۔ اس ردعمل سے پراپیگنڈہ کرنے والوں کا حوصلہ مزید بڑھا۔ حیران کن بات یہ کہ حکومتی ترجمان بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے اور گمراہ کن اطلاعات کا کوئی توڑ نہ کیا۔

ایک شہری کے طور پر قومی ذمہ داری کے احساس سے جب ہم نے اس معاملے کا کھوج لگایا تو درج ذیل چشم کشا اور حیران کن حقائق سامنے آئے جو قارئین کی معلومات کے لئے پیش کیے جا رہے ہیں تاکہ وہ حقیقت اور پراپیگنڈے میں فرق جان سکیں۔

1۔ یہ تصویر انگریزی روزنامہ ڈان میں شائع ہوئی۔ اخبار کا نام ہی معاملہ فہم لوگوں کے سمجھنے کے لئے کافی ہونا چاہیے کہ اس مذموم حرکت کے پیچھے کون سی قوتیں اور کیا عوامل کار فرما ہو سکتے ہیں۔ تاہم ایسے قارئین کے لئے جو پس منظر سے واقف نہیں اتنا اشارہ کافی ہے کہ یہ ڈان لیکس والا ہی ”ڈان“ ہے۔ قارئین کو یہ بھی یاد ہو گا کہ اس سازش کے خلاف وزیراعظم عمران خان نے بھرپور آواز اٹھائی تھی جس کے بعد ملک دشمن عناصر کو منہ کی کھانا پڑی تھی۔ اس میں تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ یہ ہزیمت اتنی آسانی سے اور جلدی بھلائے جانے والی نہیں تھی اور شکست خوردہ عناصر سے کسی بھی جوابی حرکت کی توقع کی جا سکتی تھی۔

حیران کن بات البتہ یہ ہے کہ اس حوالے سے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کیا کر رہے تھے جو اکثر بغیر معلومات کے بھی جواب دے دیتے ہیں۔ اور یہاں اتنے واضح حقائق کے باوجود پراسرار طور پر خاموش رہے جو خاکسار جیسے جز وقتی صحافی نے باآسانی حاصل کر لئے۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ اس صورتحال کی مکمل انکوائری کروائیں کیونکہ اس معاملے میں ڈان کا ملوث ہونا ملکی سلامتی کے حوالے سے بھی سنجیدہ سوالات کو جنم دیتا ہے۔

2۔ ذرا دیر کو ان حقائق پر توجہ دیں۔ اگر ایک لمحے کے لئے تصویر غور سے دیکھیں تو ایک پورٹیبل ویلڈنگ مشین واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح انڈر پاس کی چھت پر نصب ایک آہنی ڈھانچہ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ پیدل گزرنے والوں کے راستے میں ویلڈنگ پلانٹ رکھنے اور چھت کی جگہ ایک آہنی ڈھانچہ نصب کرنے کا کیا مقصد ہو سکتا تھا جو بارش روک سکتا ہے نہ دھوپ۔ اس نکتے پر جب ہم نے پشاور میں موجود چند ذرائع سے دریافت کیا تو جہاں منتخب حکومت کی عوامی فلاح کے لئے حساسیت پر خوشی ہوئی وہیں پراپیگنڈہ کرنے والوں کی منفی ذہنیت پر شدید افسوس بھی ہوا۔

3۔ حقیقت یہ ہے کہ انڈر پاس ابھی زیر تعمیر ہے۔ اور ایسا بالکل بھی نہیں کہ اچانک سے ایک گیس پائپ لائن دریافت ہو گئی جو ناقص اور نامکمل پلاننگ کا نتیجہ ہو جیسے بکاؤ میڈیا پراپیگنڈہ کر رہا ہے۔ بلکہ یہ پائپ خود نصب کی گئی۔

4۔ ہماری معلومات کے مطابق چھت پر نصب آہنی ڈھانچے پر فائبر گلاس لگا کر انڈر پاس کو مکمل باپردہ بنایا جائے گا اور تکمیل کے بعد اسے خواتین کے لئے مخصوص کر دیا جائے گا۔

5۔ جسے گیس پائپ لائن کہا جا رہا ہے وہ پانی کی پائپ لائن ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ویلڈنگ پلانٹ رکھنے کا مقصد پائپ کے ساتھ کُنڈے ویلڈ کرنا اور پائپ میں چھوٹے سوراخ کرنا تھا جن سے پانی کی پھوار نکلتی رہے۔ تاہم لوگوں کے گزرنے کی وجہ سے یہ کام رات تک مؤخر کر دیا گیا اور اس دوران ڈان کے فوٹو گرافر نے تصویر کھینچ لی۔ واضح رہے کہ پشاور میٹرو پر چوبیس گھنٹے کام ہوتا ہے۔

6۔ ہماری حیرانی دیکھتے ہوئے ذرائع نے بتایا کہ یہ سارا بندوبست ٹورازم کے فروغ اور تفریح کے مواقع پیدا کرنے کے وزیر اعظم کے وژن کے تحت کیا گیا ہے۔ مقامی ثقافت کا خیال رکھتے ہوئے چھت لگا کر خواتین کو مکمل پردہ فراہم کیا جائے گا۔ پائپ سے جڑے ہوئے کنڈوں کے ساتھ جھولے باندھے جائیں گے۔ اور چھت کی وجہ سے ساون کی جھڑی میں بھیگ نہ سکنے کا مداوا پائپ میں موجود سوراخوں سے نکلتی پھوار سے ہو گا۔ اس طرح درختوں کی عدم موجود گی میں پشاور کی خواتین کو جھولے جھلانے سے محرومی کا احساس نہیں ہو گا جو میٹرو کی وجہ سے کاٹنے پڑ گئے تھے۔ اور وہ روایتی انداز میں ساون بھی منا سکیں گی۔ صوبے کے دیگر علاقوں میں بلین ٹری سونامی کی وجہ سے درختوں کی بہتات ہے جہاں شہری ”باغوں میں پڑے جھولے، تم بھول گئے ہم کو، ہم تم کو نہیں بھولے“ گاتے ہوئے ساون سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

7۔ ثقافت کے فروغ اور تحفظ کے لئے حکومتی کوششوں اور خواتین کی تفریح کے مواقع پیدا کرنے کے لئے وزیراعظم کے وژن پر عقیدت سے نم اور حیرت سے پھٹی آنکھوں کے ساتھ ہم نے ذرائع سے آخری سوال پوچھا کہ پائپ میں پانی کہاں سے آئے گا؟

”پائپ کو 360 منی ڈیموں میں سے ایک سے جوڑ دیا جائے گا۔ اور اس کا افتتاح مون سون سے پہلے کر دیا جائے گا“۔ ذرائع نے جواب دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).