کچھی کینال اور بلوچستان کے ساتھ دھوکہ دہی


ریاست پاکستان میں وفاق کی جانب سے بلوچستان کے ساتھ بھی دھوکہ دہی بد اعتمادی اور بدعہدی کی کئی کہانیاں مشہور ہیں۔ ماضی میں خان آف قلات میر احمد یار خان اس کے بعد ان کے کزن شہزادہ آغا عبدالکریم بلوچ اور پھر نواب نوروز خان زہری کو قرآن مجید کے حلف کی آڑ میں دھوکہ دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر حکمران نے بلوچستان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں محرومیوں اور بیوفائیوں کا اعتراف بھی کیا ہے۔ معافی بھی مانگی ہے اور ازالے و تلافی کے وعدے بھی کیے مگر پھر وہ وعدے وفا نہیں ہوئے بلکہ پرانے سلسلے جاری رہے۔

سابق صدر جنرل ایوب خان نے بلوچستان میں پٹ فیڈر کینال اور دھند شاخ کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ پٹ فیڈر کینال تو انہوں نے تعمیر کر دیا جس سے بلوچستان کو بہت بڑا فائدہ ہوا مگر دھند شاخ جو بعد میں کچھی کینال کے نام سے تبدیل کیا گیا۔ وہ کچھی کینال التوا میں ڈال دیا گیا۔ پھر کئی برس بعد ایک اور جنرل پرویز مشرف نے کچھی کینال کے قیام و تعمیر کا وعدہ کیا جس کا انہوں نے اکتوبر 2002 میں تونسہ شریف میں تونسہ بیراج سے افتتاح بھی کیا۔ بلوچستان کے اس عظیم آبی منصوبے یعنی کچھی کینال کی تمیر و تکمیل سے بلوچستان کے 4 اضلاع ڈیرہ بگٹی نصیرآباد کچھی اور جھل مگسی میں 7 لاکھ ایکڑ اراضی سیراب ہونا تھا۔ اس کینال کی لمبائی 500 کلومیٹر پر محیط تھی جس میں 300 کلومیٹر پنجاب میں اور 200 کلومیٹر بلوچستان میں تھے۔ مگر میاں نواز شریف کے مسلم لیگ ن کے دور میں 2017 میں کچھی کینال کے اس عظیم منصوبے پر بلوچستان کے ساتھ عظیم دھوکہ کیا گیا۔

کینال کو ضلع کچھی تک پہنچانے کے بجائے ضلع ڈیرہ بگٹی کے سوئی کے علاقے میں محدود کیا گیا۔ جس سے 7 لاکھ ایکڑ اراضی کے بجائے صرف 70 ہزار ایکڑ اراضی سیراب کرنے پر ٹرخا دیا گیا کہاں 7 لاکھ ایکڑ اور کہاں 70 ہزار ایکڑ۔ اور سنگین مذاق کی حد کرتے ہوئے اہل بلوچستان کو مبارکباد دی گئی کہ کچھی کینال مکمل ہو گیا ہے جس کا افتتاح وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کیا تھا۔ اس موقع پر نصیرآباد سے ن لیگ کے ایم پی اے حاجی محمد خان لہڑی نے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی ہی قیادت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کچھی کینال کو اس کے اصل منصوبے کے مطابق مکمل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ جس پر شاہد خاقان عباسی نے فیز 2 شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن افسوس یہ بھی ہے کہ کچھی کینال کے لئے نصیرآباد ڈویژن سے ایم پی اے میر محمد خان لہڑی کے علاوہ کسی دوسرے ایم پی اے اور ایم این اے نے صدائے احتجاج بلند نہیں کی اور مصلحتوں کے تحت خاموش رہے۔ حالانکہ اس وقت نصیرآباد کے تمام اراکین اسمبلی کا تعلق ن لیگ سے تھا جو بعد میں گردش دوراں کے تحت بی اے پی کے پلیٹ فارم پر جلوہ افروز ہوئے۔ اس کے برعکس نیشنل پارٹی کے سینیٹر میر کبیر احمد محمد شہی نے کچھی کینال کے بارے میں سینیٹ میں احتجاج کیا۔ نیشنل پارٹی کے رہنما سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کچھی کینال کے فیز 2 کے لئے بجٹ بھی مختص کرایا مگر پھر پی ایس ڈی پی سے یہ رقم بھی واپس نکالی گئی۔

ابھی معلوم ہوا ہے کہ چند روز پہلے کراچی میں منعقد ہونے والے نیشنل پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے اہم اجلاس میں کچھی کینال کے منصوبے کی عدم تکمیل اور وفاق کی وعدہ خلافی پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے 14 اپریل 2019 کو نیشنل پارٹی کی جانب سے بلوچستان بھر کے پریس کلبز کے سامنے اس بارے میں احتجاج ریکارڈ کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بلوچستان کے علاوہ کراچی لاہور اور اسلام آباد میں بھی پریس کلبز کے سامنے احتجاج ریکارڈ کرائے جانے کی تجویز بھی ہے۔ جس میں کچھی کینال کا سیکنڈ فیز شروع کر کے اس کے اس اصل منصوبے کے مطابق مکمل کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ ہم امید ہی رکھ سکتے ہیں کہ وفاقی حکومت بلوچستان کے کچھی کینال کے اس میگا پراجیکٹ کو مکمل کر کے بلوچستان کی محرومیوں کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گی تاکہ وفاق اور بلوچستان کے درمیان اعتماد کی فضا بحال ہو سکے۔ ہمارے حکمران ویسے بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان کا روشن مستقبل بلوچستان سے وابستہ ہے۔ تو اس کے لئے عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).