اہل حق ہوں تو بہتر بھی غضب ہوتے ہیں


عراق کے وسط میں واقع کربلا کے تپتے ہوئے ریگزار میں دوپہر کا وقت ہے۔ نواسہ رسول امام حسین علیہ السلام اپنے بہتر جانثاروں کے ساتھ قہر برساتی دھوپ میں اپنے خیمے میں موجود ہیں، بچے بڑے چار دن سے پیاسے ہیں، اسی اثناء میں ایک فرشتہ آپ کی خدمت میں پیش ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو ابھی اسی وقت آپ کو یہاں سے بخیروعافیت نکال لیا جائے۔ مگر جگر گوشہ بتول کہتے ہیں کہ آج اگر حسین ابن حیدر میدان چھوڑ کے چلا گیا تو دنیا اسے شیر خدا کا فرزند ہرگز نہیں مانے گی۔ انہوں نے خون کی پروا نہ کرتے ہوئے ظلم کے سامنے کلمہ حق بلند کیا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔

لہذا ثابت ہوا کہ لہو اگر حق کے راستے میں بہایا جائے تو وہ ہفت اقلیم سے کم نہیں ہوتا۔ راہِ حق میں دیا گیا خون کا ایک ایک خطرہ تاریخ کا حصہ بنتا ہے اور ایسے بنتا ہے کہ آنے والی نسلیں اس کی گواہی دیتی ہیں۔ اور جو لوگ خون کے بہنے کا غم کرتے ہیں انہیں تاریخ کی کتابوں میں حاشیے میں بھی جگہ نہیں ملتی۔ ایک لمحے کے لیے سوچیے کہ اگر میدان کربلا میں نواسہ رسول جناب امام حسین یہ خیال بھی ذہن میں لاتے کہ اس جنگ کا نتیجہ میرے خاندان کی شہادت کی صورت میں نکلے گا اور پیچھے ہٹ جاتے تو آج دنیا کا نقشہ ہی مختلف ہوتا۔

اگر منصور حلاج دار پر چڑھائے جانے کے خوف سے انا الحق کا نعرہ ترک کردیتا تو آج اس کا نام لیوا کوئی نہ ہوتا، اگر سقراط زہر کے پیالے سے بچنے کے لیے جھوٹ کو سچ مان لیتا تو آج تاریخ کی کتابیں اس کے بارے میں خاموش ہوتیں اور اگر بلالِ حبشی مالک کے خوف سے احد احد کی صدا لگانا بند کردیتے تو آج نعتوں اور قصیدوں میں کسی بلال کا نام و نشان تک نہ ہوتا۔ یہ سب شخصیات تاریخ میں امر ہوئیں تو اس لیے کہ انہوں نے حق کی خاطر لہو بہانا اپنی خوش قسمتی جانا اور ہنسی خوشی راہ عدم کو سدھار گئے۔ مگر صلہ دیکھیے کہ آج دنیا ان کو نصاب میں پڑھتی ہے۔ آج کا شاعر انہیں یوں یاد کرتا ہے

یہ فقط عظمت کردار کے ڈھب ہوتے ہیں

فیصلے جنگ کے میدان میں کب ہوتے ہیں

جھوٹ تعداد میں کتنا ہی زیادہ ہو سلیم

اہل حق ہوں تو بہتر بھی غضب ہوتے ہیں

جن معاشروں میں جان کو عزت پر ترجیح دی جائے وہاں میر جعفر اور میر صادق پیدا ہوا کرتے ہیں اور جہاں عزت مقدم ٹھہرے وہاں ٹیپو سلطان اور احمد خان کھرل جنم لیتے ہیں۔ جہاں لہو کا بہنا غمی کا موجب ٹھہرے وہاں یزیدیت تو پنپ سکتی ہے مگر حسینیت نہیں، وہاں ابن زیاد اور شمر کی سوچ تو پروان چڑھتی ہے مگر مردِ حر ایک بھی نہیں ملتا۔

تو فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اگر آپ کا ہیرو یزید ہے تو یونہی اپنے لہو کو بچا کر رکھیے اور جھوٹ کو سچ لکھتے، بولتے اور ثابت کرتے رہیے۔ مگر اگر آپ خود کو حسین ابنِ حیدر کے پیروکاروں میں کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر لہو کے بہنے کو اپنی خوش قسمتی جانیے اور حق کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیجیے، یقین مانیے آپ کے لہو کی بوند بوند تاریخ کا ورق بنے گی۔

تمہاری آنے والی تمام نسلیں

گواہی دیں گی کہ تم کھڑے تھے

کہ جب اندھیرے کی کوکھ میں سے

نکلنے والے یہ سوچتے تھے

کہ کوئی جگنو بچا نہیں ہے

تو تم کھڑے تھے

ہاں تم کھڑے تھے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).