شہنشاہ اکبر اور نواز شریف


نواز شریف کو اکثر مغل بادشاہ اکبر سے مماثلث دی جاتی رہی۔ جو حقائق اور تاریخ دونوں سے نا انصافی ہے۔

جلال الدین اکبر ایک عظیم مدبر اور دلیر حکمران تھا۔ اسی شہر لاھور میں، دریائے راوی پر واقع بارہ دری پر ایک تیرہ یا چودہ سالہ لڑکا اپنے باپ کے وفادار آزمودہ جرنل بیرم خاں کے ساتھ محو استراحت تھا کہ ناگاہ ہرکارہ خبر لاتا ہے کہ بادشاہ ہمایوں راھئی جنت ہوئے اور ہیمو بقال سپہ سالار نمک حرام نے بغاوت کرتے ہوئے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا ہے۔ چودہ سالہ جانشیں کو حکم دیا ہے کہ دلی پہنچ کر اطاعت کرے یا موت کے لئے تیار رہے۔

نوجوان اکبر فرط جذبات سے کانپ آٹھا اور بغاوت کا سامنا کرنے کا اعلان کیا۔ تجربہ کار وفادار بوڑھا جرنیل صبر اور دانشمندی سے کمک پہنچنے تک انتظار کا مشورہ دیتا ہے لیکن اخلاقی برتری سے مسلح جوانی دو سو وفاداروں کی جماعت سے کوچ کا اعلان کرتی ہے۔ بیرم خاں تم کمک لے کر شتابی پانی پت تک پہنچنا اور منزلوں پر منزل مارتا ہیمو بقال کے لشکر جرار پہ جا پڑتا ہے۔ بیرم خاں بھی وفادار جرنیلوں سمیت مدد کو پہنچا اور اکبر معرکے میں سرخرو ہوا۔

باقی تاریخ ہے، اگر وہ نوجوان اکبر اس جنگ میں مارا جاتا تو اس کو کون جانتا؟ ہیمو بقال کو چشم تصور سے دیکھتا ہوں تو وہ مودی نما ایک متعصب راج راجیشوری کا مارا لگتا ہے ہیمو بقال کو گرفتار کر کے بادشاہ کے سامنے لایا گیا اکبر اپنے ہاتھ سے اس کا سر قلم کرو، بیرم خاں بادشاہ سے مخاطب ہو کے کہتا ہے لیکن اکبر منہ پھیر لیتا ہے بیرم خاں یہ میری تلوار کے قابل نہیں۔ بادشاہ کے مرتے ہی اس کے نوجوان جانشیں کی اطاعت سے انکار فتنہ عظیم تھا اور بغاوت برپا کرنے والا فتنہ ڈالنے والا بادشاہ کی تلوار سے زیادہ قانونی سزا کا مستحق ہے۔ اس زمانے کا یہی دستور تھا لیکن اکبر نے اعلی ظرفی کا ثبوت دیا۔ بادشاہ لوگوں کا نمائندہ یوں کہلاتا تھا کہ وہ اس پر اعتبار کرتے کہ وہ انہیں جان و مال کا تحفظ عطا کرے۔ عوام تو کلانعام ہیں وہ روٹی کے لیے خود ہی تگ و دو کرتے ہیں۔ نواز شریف ہر پہلو سے بادشاہ نہیں جمہور کا منتخب نمائندہ تھا اگرچہ جلال پادشاھی ہو کہ جمہوری تماشا ہو۔ طریق کوھکن میں بھی وھی حیلے ہیں پرویزی۔ اگر نواز شریف اپنے ہیمو بقالوں کے سامنے ڈٹ جاتا تو تاریخ میں امر ہو جاتا لیکن نواز شریف دور حاضر کا بظاہر منتخب عوامی لیڈر اندروں سوداگر بچہ ہے۔ حکمرانی کبھی بھی سوداگروں کا کام نہیں رہا۔ (سخت اعتراض ہے۔ آپ کی رائے کا حترام ہے۔ مدیر و- مسعود)

افلاطون کی ”رپبلک“ سے تا عصر حاضر کوئی فلسفی ایسا نہیں جس نے افلاطون کو جھٹلایا ہو۔

اکبر کابل سے لاھور تک سفر کے دوران جا بجا عوام کو اپنا درشن دیتا ہے اور سارا رستہ لوگوں میں سونا چاندی اشرفیاں نچھاور کرتا ہوا لاھور میں اپنی ایک پسندیدہ جگہ رکا تو دور دور تک سادھووں جوگیوں کو بیٹھا دیکھا، عمال خبر دیتے ہیں کہ ہندو جوگی سنیاسی ہیں۔ بادشاہ مسکرا کر دریافت کرتا ہے کہ یہ کھاتے پیتے کہاں سے ہیں؟ جواب میں خاموشی، بادشاہ فوراً لنگر جاری کرنے کا حکم دیتا ہے آج تک وہ علاقہ ”دھرم پورہ“ کے نام سے موجود ہے، آباد ہے۔

مورخین، برنی سے ڈاکٹر مبارک جیسے کٹڑ پنتھی تک، اکبر کی مخلوط سیکولر پالیسیوں کی تعریف کرتے ہیں۔ بادشاہوں کا کام ہی یہ تھا کہ ملک کو غیر ملکی حملوں کی صورت میں دشمن سے بچائیں ان کے مال کاروبار کی حفاظت کریں امن عامہ اور فلاح تامہ کی ذمہ داری نبھائیں نہ کہ اپنے عوام کو لوٹتے جائیں۔

اکبر سری لنکا بنگال موجودہ ہندوستان بشمول کشمیر تا کابل و قندھار تک کا بے تاج بادشاہ تھا۔ اس زمانے میں بھی آج کے طالبان محسودی و بنگش قبائل کی صورت موجود تھے اکبر نے انہیں ایسا سبق دیا کہ پھر صدیوں تک مزاحمت کے قابل نہ رہے۔ اکبر ایک بار بادشاہ بنا اور ایسے کارنامے انجام دے گیا کہ اس کا نام دنیا کہ دس عظیم حکمرانوں میں ہوا ہمارے میاں صاحب کا نام دس کرپٹ ترین حکمرانوں میں ہے۔

اکبر نے جس مخلوط گنگا جمنی تہذیب کی بنیاد رکھی وھی بعد میں تقسیم برصغیر کا باعث بنی یوں اکبر ہمارا محسن ہے۔ اگرچہ وہ بیرونی حملہ آوروں کا بیٹا تھا لیکن اس کے باپ اور عظیم دادا بابر نے ہندوستان میں بسنے کا ارادہ کیا اور یوں خود کو حملہ آور لٹیروں سے ممتاز کیا۔ امیر تیمور جب ہندوستان کو تاخت و تاراج کر چکا تو جرنیلوں میں سے کسی نے مشورہ دیا کہ ایسی فضاؤں میں کیوں نہ مستقل قیام کر لیا جائے۔ بادیہ نشین تیمور نے جواب دیا تم نے اگر ایسا کیا تو تمھاری نسلیں جنگجو اور وحشی نہ رہیں گی اور شہری تمدن انہیں کھا جائے گا۔ اکبر کے دادا نے اجنبی سرزمین کو وطن بنایا اور حق و انصاف کے ساتھ حکومت کی اور عظیم مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی جسے اس کے پوتے اکبر نے حدود کمال تک پہنچایا۔

یہ کالم تفصیلات کا متحمل ہو سکتا تو تفصیل بیاں کرتا۔

نواز شریف اس اخلاقی برتری کا حامل ہوتا تو عوام کے حق حکمرانی کے لیے جدوجہد کرتا نہ کہ کئی نسلوں کی بقا کے لیے مال جمع کرتا۔ جس کی انتہا نہیں۔ حتی زرتم المقابر۔ یہ تو مالی بدعنوانیوں میں سزا یافتہ سوداگر بچے ہیں۔ ان کا جلال الدین اکبر سے کیا مقابلہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).