بلوچستان کا رقبہ زیادہ ہے یا ہزارہ قبریں؟


بچپن سے لے کر بلوغت کی سیڑھیوں پر قدم رکھنے تک، پھر بڑھاپے تک کی زندگی میں ایک بات سے ہم نا آشنا ہیں کہ کیا شیعہ ہونا جرم ہے؟ اگر ”شیعہ“ علی سے محبت کرنے والے کو کہتے ہیں ؛ اور ”سُنی“ محمد کی سُنت سے محبت کو کہتے ہیں، تو اس طرح سے علی سے بڑا کوئی سُنی نہیں، رسول خدا محمد سے بڑا کوئی شیعہ نہیں ہے۔ محمد و اہلیبت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات امن و آشتی کا درس دیتی ہیں، جوکہ کسی خاص مکتب کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے مشعل راہ ہیں۔

ہمارے پیارے وطن میں خوف کے بادل اللہ جانے کیوں منڈلاتے رہتے ہیں۔ اس کا علم ہمیں تو نہیں ہے، اگر آپ کوئٹہ، پاراچنار اور گلگت میں رہتے ہیں ؛ اور آپ کا تعلق ہزارہ شیعہ برادری سے ہے، پھر بھی آپ اب تک زندہ سلامت ہیں، تو یہ آپ کی واحد خوش قسمتی ہے۔ کسی بھی خود کش حملے میں مخصوص طبقے کی نشاندہی کر کے ان کا قتل کردیا جائے، تو معلوم چلتا ہے کہ جاں بحق افراد کا تعلق فلاں مسلک سے تھا۔ اس حقیقت کو جاننے کے بعد یہ نہیں کہا جاتا کہ کوئی انسان یا مسلمان شہید ہوا، ”ارے یہ تو ہزارہ والے مرے ہیں چھوڑو! “ ایسے الفاظ سننے کو ملتے ہیں، یہ الفاظ میرے اپنے نہیں ہیں، یہ حقیقت ہے۔ کہتے ہیں انسانیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا مگر ہم نے انسانیت کو بھی درجات میں منقسم کردیا ہے۔

ان خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں کئی بچے یتیم ہوگئے، عورتیں بیوہ ہوگئی، بہنوں سے بھائی چھن گیا، بھائیوں کا بھائی چھن گیا، ماں باپ کا سہارا ٹوٹ گیا، لیکن انسان کو قتل کرے کے کیا ملا؟ تو پھر ذرا سوچیئے، لواحقین نے تو تسلی بھرے وعدوں کی صداقت پر یقین کر لیا ہے، تو پھر آخر ان سوالوں کا جواب کون دے گا؟ آج بھی شہداء کے لواحقین جواب کے منتظر ہیں۔

یوں تو پاکستان میں سالانہ تقریباً 20 کے قریب شیعہ افراد کو فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ لیکن شیعہ ہزارہ برادری پاکستان میں بسنے والی ایسی کمیونٹی ہے، جو مسلسل دہشت گردی کے حملوں کا شکار بنتی ہے۔ اگر اس قوم کی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو ہزارہ برادری افغانستان میں آباد تھی، کہا جاتا ہے کہ ہزارہ برادری اسلام کی آمد سے پہلے بدھ پرست تھی۔ ہزارہ برادری کے بزرگ کہتے ہیں امام علی علیہ السلام جب افغانستان آئے تھے، تو یہ برادری اسلام میں داخل ہوئی تھی۔ افغانستان کے کئی مقامات کو قدم گاہ مولا یعنی امام علی علیہ السلام کے قدموں کی جگہ کہا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہزارہ برادری کے افراد کوئٹہ اور ایران کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ البتہ بڑی تعداد افغانستان میں ہی آباد ہے۔ اس کے علاوہ کثیر تعداد میں یہ برادری کوئٹہ میں بھی آباد ہے۔

پاکستان میں آباد ہزارہ قوم پر پہلا دہشتگرد حملہ 6 اکتوبر 1999 میں ہوا تھا۔ جس کا نشانہ اس وقت کے صوبائی وزیر ہائیرایجوکیشن سردار نثار علی خان ہزارہ تھے، جس میں ان کا ڈرائیور صفدر علی جاں بحق جبکہ وہ خود اپنے باڈی گارڈ منظورحسین کے ساتھ زخمی ہوئے تھے۔ شیعہ ہزارہ برادری پہلی بار نشانہ نہیں بنی، خدشہ ہے کہ آخری بار بھی نہیں ہے۔ انہیں ان کی نسلی رنگ روپ کی وجہ سے پہچانا اور مذہبی عقیدے کی وجہ سے قتل کیا جاتا ہے۔

کوئٹہ میں جاری ہزارہ قتل عام کے سرسری جائزے سے حقائق بالکل واضح ہوجاتے ہیں۔ جہاں شیعہ ہزارہ برادری کے لوگوں کو سبزی خریدنے پولیس اور ایف سی کے پہرے میں آنا پڑتا ہے، وہاں یہ کہہ دینا کہ یہ کوئی رینڈم سا دھماکہ تھا، جس میں یہ لوگ یونہی مر گئے ہیں یہ بہت ہی آسان ہے۔ کچھ دن بعد یہ قصہ بھی باقی سانحات کی طرح دَب جانا ہے۔

شیعہ ہزارہ برادری پاکستان کی وہ برادری ہے، جسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے جامعہ کے طالب علم، معصوم بچوں، زیارت پر جانے والے زائرین، جلوسِ عزا میں شریک عزادار، موٹر سائکل پر جانے والے بہن بھائی، میاں بیوی، بس میں سفر کرنے والی خواتین، محنت مزدوری کرنے والے مزدور، بلاگرز، سبزی کا ٹھیلا لگانے والے، اُستاد، بزنس مین ڈاکٹر، صحافی انجینئر غرض ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والا انسان قتل ہوچکا ہے۔ اب صرف مریض رہ گئے تھے، علاج کی غرض سے کراچی جانے والے مریض کو بھی اپنے اہل خانہ سمیت قتل کردیا گیا تھا۔

اب تو صرف اس براداری سے تعلق رکھنے والوں میں گورکن طبقہ ہی بچا ہے، جو شاید اس لئے محفوظ ہے کیونکہ انہیں قبر تیار کرنی ہوتی ہے۔ شاید بلوچستان کو اللہ تعالی نے اتنا بڑا رقبہ اس لئے عطا کیا ہے کہ کیونکہ یہاں ہزارہ برادری کے وسیع قبرستان آباد ہوسکیں۔ خدا باری تعالٰی سے دعا ہے کہ وطن عزیز کے ہر شہری کو اپنے حفظ و امان میں رکھیں۔ الہی آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).