ہزارہ برادری کے ہزاروں قتل اور نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم


جمعے کا دن تھا۔ سال کے تیسرے مہینے کی پندرہویں دوپہر تھی۔ موسم خاصا خوشگوار تھا لہذا کھانا کھاتے ہی ہم نے قریبی پارک میں جانے کی ٹھانی۔ کانوں ہر ہیڈ فون جمائے اور اپنی دھن میں نکل پڑے۔ ہماری عادت ہے تیز چلنے کی اور جگہ جگہ ٹھوکر کھانے کی۔ اسی روایت کو قائم رکھا اور کچھ ہی دیر میں پارک پہنچ گئے۔ یہاں پہنچتے ہی فون کو ہاتھوں میں لیا اور بجائے قدرت کی خوبصورتی سے محفوظ ہونے کے اپنے میسج اورسوشل میڈیا دیکھنے لگے۔ ہماری جنریشن بھی عجیب ہے۔ ہر دم انٹرنیٹ کی دنیا سے کنیکٹڈ۔ ہر دم حقیقت سے ڈس کنیکٹڈ۔

امی کا میسج تھا۔
’کیسی ہو؟ ‘

سہیلی کا میسج تھا
’ٹھیک ہو نا؟ ‘

امی کو تو تمیز دار جواب دیا لیکن سہیلی سے کیوں تکلف برتتے۔ جھٹ بولے
’بہت ٹھیک ہوں۔ سب سے ٹھیک ہوں۔ تم سے بھی ٹھیک ہوں۔ ‘

ہم نہیں جانتے تھے کہ اس استفسار میں کیا چھپا ہے۔ کچھ ہی دیر میں وجہ معلوم ہو گئی۔ نیوزی لینڈ کرائسٹ چرچ میں ایک مسجد پر دہشت گردی کے بیہمانہ حملے میں کئی مسلمان اپنی جان کھو بیٹھے۔ ہر طرف خوف کی فضا قائم ہو گئی تھی۔ ایک انجانا سا ڈر تھا کہ اب کیا ہو گا۔

تمام عمر اسلامی ممالک میں رہے تھے۔ اس احساس سے یکسر غافل تھے کہ اقلیت ہونا کیا ہوتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں ایک کمزور طبقے کے کیا مسائل ہو سکتے ہیں ہمیں کیا علم تھا۔ آسٹریلیا نے ہمیں چند ہی دن میں اپنی آغوش میں یوں بھر لیا تھا کہ ہمیں یہ احساس ہی نہ ہو پایا تھا کہ مذہب کے نام پر کیا خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

عجیب بات یہ تھی کہ پاکستان سے تعلق رکھتے تھے جہاں ایک وقت میں دہشت گردی کے واقعات نارمل سی بات بن چکے تھے۔ لیکن اس واقعے میں ایسا کیا تھا کہ گھر سے باہر قدم رکھتے بھی ڈر لگتا تھا؟ شاید کم مائیگی اور بے وقعتی کا احساس۔ آٹے میں نمک کی مقدار کا ادراک۔ شاید نہیں یقینا!

لیکن عام لوگوں اور حکومت نے جس قسم کے اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کیا تھا اس نے ہمیں مزید حیران کر دیا۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے تو پوری دنیا کے دل جیت لیے۔ خود متاثرین کے اہل خانہ سے ملیں۔ ان کے سر پر کالی ردا اور چہرے پر گہرے غم کے تاثرات پوری دنیا میں ان کی تعریف کا باعث بنے۔ عام عوام کا اظہار تجدید بھی ہر طرف سراہا گیا۔

پاکستان میں بھی جیسنڈا آڈرن ایک سمبل کی حیثیت اختیار کر گئیں۔ اسمبلی میں نسل پرستی کے خلاف شعلہ بیانی کرتی ہوئی ایک ممبر کا بھی چرچا رہا۔ واقعے کے بعد آنے والے پہلے جمعے پر عوام کا جم غفیر بھی توجہ کا مرکز رہا۔ کئی مساجد میں انسانی ڈھال بنے سفید فاموں کی تصاویر کو جگہ جگہ شیئر کیا گیا۔ اقلیتوں کے حقوق کے لئے سیسہ پلائی اس قوم کی وہ واہ واہ ہوئی کہ یقین ہی نہ آیا ہم وہی لوگ ہیں جو اپنے ہاں لسانی اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔ لگا کہ شاید ہم بدل گئے ہیں۔

لیکن صاحب، کسی خوش فہمی میں مت رہیئے۔ ہمارے ہاں کون سا ایسے واقعات کی کمی ہے۔ ابھی کل ہی کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے خون کی ہولی ایک بار پھر کھیلی گئی۔ اس راس لیلا کا کوئی سرا کیوں نہیں۔ ؟ واللہ اعلم۔

ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ ہزارہ برادری جو فقہ جعفریہ سے تعلق رکھتے ہیں پہلی بار اس دہشت گردی کا نشانہ نہیں بنے۔ مذہب کے نام پر یہ قتل پہلی بار نہیں ہوئے۔ پہلی بار یہ لوگ اپنوں کی لاشیں رکھ کر احتجاج نہیں کر رہے۔ پہلی بار لبیک یا حسین کے کفن میں لپٹی یہ ہزارہ لاشیں اپنے قاتلوں کا نام نہیں مانگ رہیں۔

پہلی بار اس قتل پر خاموشی نہیں ہے۔ پہلی بار حکومت کی طرف سے دبی دبی مذمت نہیں ہوئی۔ پہلی بار اس بات سے نظریں نہیں موڑی گئیں کہ یہ قتل ایک مخصوص برادری کے ہیں۔ پہلی بار ایسا نہیں ہوا کہ حکومت نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کی ہوں۔

روٹین ہے، باس۔ وہ جارج آرول کی کتاب ’دی اینیمل فارم‘ میں کہا گیا ہے نا
’تمام جانور برابر ہیں۔ لیکن کچھ جانور زیادہ برابر ہیں۔ ‘

زیادہ برابر والے جانوروں کو کم جانوروں سے کیا لگے۔ خون تو سب کا لال ہے لیکن اس کے کئی شیڈ ہیں۔ ہر شیڈ کا مرتبہ مختلف ہے۔ یہ عام سی بات ہے۔ کچھ نیا نہیں۔

لیکن ہاں، ایک چیز پہلی بار ضرور ہوئی ہے۔ یہ واقعہ جیسنڈا آڈرن کے مسلمانوں کو گلے لگانے کے بعد پہلا دہشت گردی کا واقعہ پے۔ بھلے ہزارہ کے اہل تشیع کو جتنا بھی اپنے برابر کہہ لیں ان کا خون کا قدر ارزاں ہے یہ ہم سب جانتے ہیں۔ سندھ میں ہندو لڑکیوں کی جبری شادیاں ہوں یا ان معصوموں کا قتل عام۔ بات اقلیتی حقوق کی ہی ہے۔

کیا ہمارے وزیر اعظم اس بچے کو گلے لگائیں گے جو اپنے کندھے پر اسپیکر جمائے کھڑا ہے کہ احتجاج کی آواز دور تک جائے؟ کیا ہم ان کی مساجد میں انسانی ڈھال بنا کر کھڑے ہوں گے؟ کیا ہمارے کوئی ممبر پارلیمان میں شعلہ بیانی کریں گے کہ ریاست ہزارہ برادری کا منظم قتل عام بند کرائے؟

جی نہیں۔ منہ دھو رکھئے۔ جیسنڈا آڈرن نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم ہیں، ہماری نہیں۔ ہمارے ہاں ایسا کوئی رواج نہیں۔ ہمارے ہاں ہمارے علاوہ کسی کو جینے کا حق نہیں۔

اسی دن کی بات ہے کہ ایک افغان ریستوران میں کچھ ہزارہ خاندان دکھائی دے۔ دل ہی دل میں یہ سوال اٹھا کہ کیا جان کی قیمت وطن بدری ہی ہے۔ دل ہی دل میں یہ جواب بھی اٹھا
’ہاں، ہاں اور ہاں۔ ‘

ہم نیوزی لینڈ کی عوام اور ان کی وزیر اعظم سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں جس کو رہنا ہے ہماری طرح ہم جیسے شکلیں بنا کر رہنا ہو گا۔ ورنہ ہماری بلا سے۔

وہ بچپن میں پگن پگائی کے لئے بھلا کیا کہا کرتے تھے؟
’ان پن سیفٹی پن، ان پن آوٹ
کھیلنا ہے تو کھیلو، ورنہ گیٹ آوٹ
یا تو ہماری طرح کھیلو یا پھر اپنی جان بچا کر چلتے بنو۔ ورنہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).